اور اگر کبھی تو کسی قوم کی جانب سے کسی خیانت سے فی الواقع ڈرے تو (ان کا عہد) ان کی طرف مساوی طور پر پھینک دے۔ بے شک اللہ خیانت کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔[58]
ارشاد ہوتا ہے کہ ” اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی سے تمہارا عہد و پیمان ہو اور تمہیں خوف ہو کہ یہ بدعہدی اور وعدہ خلافی کریں گے تو تمہیں اختیار دیا جاتا ہے کہ برابری کی حالت میں عہد نامہ توڑ دو اور انہیں اطلاع کر دو تاکہ وہ بھی صلح کے خیال میں نہ رہیں۔ کچھ دن پہلے ہی سے انہیں خبر دو۔ اللہ خیانت کو ناپسند فرماتا ہے کافروں سے بھی تم خیانت نہ کرو۔“
مسند احمد میں ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے لشکریوں کی روم کی سرحد کی طرف پیش قدمی شروع کی کہ مدت صلح ختم ہوتے ہی ان پر اچانک حملہ کر دیں تو ایک شیخ اپنی سواری پر سوار یہ کہتے ہوئے آئے کہ وعدہ وفائی کرو، عذر درست نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب کسی قوم سے عہد و پیمان ہو جائیں تو نہ کوئی گرہ کھولو نہ باندھو جب تک کہ مدت صلح ختم نہ جوئے یا انہیں اطلاع دے کر عہد نامہ چاک نہ ہو جائے۔ جب یہ بات سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو آپ نے اسی وقت فوج کو واپسی کا حکم دے دیا۔ یہ شیخ عمرو بن عنبسہ رضی اللہ عنہ تھے۔ [سنن ابوداود:2759،قال الشيخ الألباني:صحیح]
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ایک شہر کے قلعے کے پاس پہنچ کر اپنے ساتھیوں سے فرمایا ”تم مجھے بلاؤ میں تمہیں بلاؤں گا جیسے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو انہیں بلاتے دیکھا ہے۔“ پھر فرمایا ”میں بھی انہیں میں سے ایک شخص تھا پس مجھے اللہ عزوجل نے اسلام کی ہدایت کی اگر تم بھی مسلمان ہو جاؤ تو جو ہمارا حق ہے وہی تمہارا حق ہو گا اور جو ہم پر ہے تم پر بھی وہی ہو گا اور اگر تم اس نہیں مانتے تو ذلت کے ساتھ تمہیں جزیہ دینا ہو گا اسے بھی قبول نہ کرو تو ہم تمہیں ابھی سے مطلع کرتے ہیں جب کہ ہم تم برابری کی حالت میں ہیں اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں رکھتا۔“ تین دن تک انہیں اسی طرح دعوت دی آخر چوتھے روز صبح ہی حملہ کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فتح دی اور مدد فرمائی۔ [سنن ترمذي:1548،قال الشيخ الألباني:ضعیف]