قرآن مجيد

سورة الأنفال
إِذْ يُرِيكَهُمُ اللَّهُ فِي مَنَامِكَ قَلِيلًا وَلَوْ أَرَاكَهُمْ كَثِيرًا لَفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَلَكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ[43]
جب اللہ تجھے تیرے خواب میں دکھا رہا تھا کہ وہ تھوڑے ہیں اور اگر وہ تجھے دکھاتا کہ وہ بہت ہیں تو تم ضرور ہمت ہار جاتے اور ضرور اس معاملے میں آپس میں جھگڑ پڑتے اور لیکن اللہ نے سلامت رکھا۔ بے شک وہ سینوں والی بات کو خوب جاننے والا ہے۔[43]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 43، 44،

لڑائی میں مومن کم اور کفار زیادہ دکھائی دئیے ٭٭

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں مشرکوں کی تعداد بہت کم دکھائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے ذکر کیا، یہ چیز ان کی ثابت قدمی کا باعث بن گئی۔

بعض بزرگ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے ان کی تعداد کم دکھائی۔ جن آنکھوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوتے تھے۔ لیکن یہ قول غریب ہے جب قرآن میں «مَنَامِ» کے لفظ ہیں تو اس کی تاویل بلا دلیل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟

ممکن تھا کہ ان کی تعداد کی زیادتی میں رعب بٹھا دے اور آپس میں اختلاف شروع ہو جائے کہ آیا ان سے لڑیں یا نہ لڑیں؟ اللہ تعالیٰ نے اس بات سے ہی بچا لیا اور ان کی تعداد کم کر کے دکھائی۔

اللہ پاک دلوں کے بھید سے سینے کے راز سے واقف ہے آنکھوں کی خیانت اور دل کے بھید جانتا ہے۔ خواب میں تعداد میں کم دکھا کر پھر یہ بھی مہربانی فرمائی کہ بوقت جنگ بھی مسلمانوں کی نگاہوں اور ان کی جانچ میں وہ بہت ہی کم آئے تاکہ مسلمان دلیر ہو جائیں اور انہیں کوئی چیز نہ سمجھیں۔

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں میں نے اندازہ کر کے اپنے ساتھی سے کہا کہ یہ لوگ تو کوئی ستر کے قریب ہوں گے اس نے پورا اندازہ کر کے کہا نہیں کوئی ایک ہزار کا یہ لشکر ہے۔

پھر اسی طرح کافروں کی نظروں میں بھی اللہ حکیم نے مسلمانوں کی تعداد کم دکھائی اب تو وہ ان پر اور یہ ان پر ٹوٹ پڑے۔ تاکہ رب کا کام جس کا کرنا وہ اپنے علم میں مقرر کر چکا تھا پورا ہو جائے کافروں پر اپنی پکڑ اور مومنوں پر اپنی رحمت نازل فرما دے۔

جب تک لڑائی شروع نہیں ہوئی تھی یہی کیفیت دونوں جانب رہی لڑائی شروع ہوتے ہی اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار فرشتوں سے اپنے بندوں کی مدد فرمائی مسلمانوں کا لشکر بڑھ گیا اور کافروں کا زور ٹوٹ گیا۔ چنانچہ اب تو کافروں کو مسلمان اپنے سے دگنے نظر آنے لگے اور اللہ نے موحدوں کی مدد کی اور آنکھوں والوں کیلئے عبرت کا خزانہ کھول دیا۔

جیسے کہ «‏‏‏‏قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا ۖ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَأُخْرَىٰ كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ ۚ وَاللَّـهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَن يَشَاءُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّأُولِي الْأَبْصَارِ» [ 3-آل عمران: 13 ] ‏‏‏‏، میں بیان ہوا ہے۔ پس دونوں آیتیں ایک سی ہیں مسلمان تب تک کم نظر آتے رہے جب تک لڑائی شروع نہیں ہوئی۔ شروع ہوتے ہیں مسلمان دگنے دکھائی دینے لگے۔