قرآن مجيد

سورة الأنفال
وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ[30]
اور جب وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، تیرے خلاف خفیہ تدبیریں کر رہے تھے، تا کہ تجھے قید کر دیں، یا تجھے قتل کر دیں، یا تجھے نکال دیں اور وہ خفیہ تدبیرکر رہے تھے اور اللہ بھی خفیہ تدبیر کر رہا تھا اور اللہ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔[30]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 30،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی ناپاک سازش ٭٭

کافروں نے یہی تین ارادے کئے تھے جب ابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کے راز اور ان کے پوشیدہ چالیں معلوم بھی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں وہ تین شورشیں کر رہے ہیں قید، قتل یا جلاوطنی۔ اس نے تعجب ہو کر پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر کس نے دی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پروردگار نے ، اس نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پروردگار بہترین پروردگار ہے، تم اس کی خیر خواہی میں ہی رہنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس کی خیر خواہی کیا کرتا وہ خود میری حفاظت اور بھلائی کرتا ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:15978:مرسل و ضعیف] ‏‏‏‏

اسی کا ذکر اس آیت میں ہے لیکن اس واقعہ میں ابوطالب کا ذکر بہت غریب بلکہ منکر ہے اس لیے کہ آیت تو مدینے میں اتری ہے اور کافروں کا یہ مشورہ ہجرت کی رات تھا اور یہ واقعہ ابوطالب کی موت کے تقریباً تین سال کے بعد کا ہے۔ اسی کی موت نے ان کی جرأتیں دو بالا کر دی تھیں، اس ہمت اور نصرت کے بعد ہی تو کافروں نے آپ کی ایذاء دہی پر کمر باندھی تھی۔

چنانچہ مسند احمد میں ہے کہ قریش کے تمام قبیلوں کے سرداروں نے دارالندوہ میں جمع ہونے کا ارادہ کیا۔ ملعون ابلیس انہیں ایک بہت بڑے مقطع بزرگ کی صورت میں ملا۔ انہوں نے پوچھا آپ کون ہیں؟ اس نے کہا اہل نجد کا شیخ ہوں۔ مجھے معلوم ہوا تھا کہ آپ لوگ آج ایک مشورے کی غرض سے جمع ہونے والے ہیں، میں بھی حاضر ہوا کہ اس مجلس میں شامل ہو جاؤں اور رائے میں اور خیر خواہی میں کوئی کمی نہ کروں۔

آخرمجلس جمع ہوئی تو اس نے کہا اس شخص کے بارے میں پورے غور و خوض سے کوئی صحیہ رائے قائم کر لو۔ واللہ اس نے تو سب کا ناک میں دم کر دیا ہے۔ وہ دلوں پر کیسے قبضہ کر لیتا ہے؟ کوئی نہیں جو اس کی باتوں کا بھوکوں کی طرح مشتاق نہ رہتا ہو۔ واللہ اگر تم نے اسے یہاں سے نکالا تو وہ اپنی شیریں زبانی اور آتش بیانی سے ہزارہا ساتھی پیدا کر لے گا اور پھر جو ادھر کا رخ کرے گا تو تمہیں چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا پھر تو تمہارے شریفوں کو تہ تیغ کر کے تم سب کو یہاں سے بیک بینی و دوگوش نکال باہر کرے گا۔

سب نے کہا شیخ جی سچ فرماتے ہیں اور کوئی رائے پیش کرو اس پر ابوجہل ملعون نے کہا ایک رائے میری سن لو۔ میرا خیال ہے کہ تم سب کے ذہن میں بھی یہ بات نہ آئی ہو گی، بس یہی رائے ٹھیک ہے، تم اس پر بے کھٹکے عمل کرو۔

سب نے کہا چچا بیان فرما ئیے! اس نے کہا ہر قبیلے سے ایک نوجوان جری بہادر شریف مانا ہوا شخص چن لو یہ سب نوجوان ایک ساتھ اس پر حملہ کریں اور اپنی تلواروں سے اس کے ٹکڑے اڑا دیں پھر تو اس کے قبیلے کے لوگ یعنی بنی ہاشم کو یہ تو ہمت نہ ہو گی قریش کے تمام قبیلوں سے لڑیں کیونکہ ہر قبیلے کا ایک نوجوان اس کے قتل میں شریک ہو گا۔ اس کا خون تمام قبائل قریش میں بٹا ہوا ہو گا نا چار وہ دیت لینے پر آمادہ ہو جائیں گے، ہم اس بلا سے چھوٹ جائیں گے اور اس شخص کا خاتمہ ہو جائے گا۔

اب تو شیخ نجدی اچھل پڑا اور کہنے لگا اللہ جانتا ہے واللہ بس یہی ایک رائے بالکل ٹھیک ہے اس کے سوا کوئی اور بات سمجھ میں نہیں آتی بس یہی کرو اور اس قصے کو ختم کرو اس سے بہتر کوئی صورت نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ یہ پختہ فیصلہ کر کے یہ مجلس برخاست ہوئی۔

وہیں جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا آج کی رات آپ اپنے گھر میں اپنے بسترے پر نہ سوئیں کافروں نے آپ کے خلاف آج میٹنگ میں یہ تجویز طے کی ہے۔

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی کیا اس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر اپنے بستر پر نہ لیٹے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہجرت کی اجازت دے دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینے پہنچ جانے کے بعد اس آیت میں اپنے اس احسان کا ذکر فرمایا اور ان کے اس فریب کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا «وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّـهُ ۖ وَاللَّـهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ» ” وہ تو اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور سب سے زیاده مستحکم تدبیر واﻻ اللہ ہے۔ “

ان کا قول تھا «ثُمَّ تَرَبَّصُوا بِهِ رَيْب الْمَنُون حَتَّى يَهْلِك كَمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْله مِنْ الشُّعَرَاء» اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشادِ باری تعالیٰ ہے «‏‏‏‏أَمْ يَقُولُونَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهِ رَيْبَ الْمَنُونِ» [ 52-الطور: 30 ] ‏‏‏‏، یعنی ” کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ شاعر ہے ہم اس کے بارے میں حادثہ موت کا انتظار کررہے ہیں۔“ اس دن کا نام ہی یوم الزحمہ ہو گیا کیونکہ اس روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کی گئی تھی۔ [دلائل النبوۃ للبیھقی:468/2] ‏‏‏‏

ان کے انہی ارادوں کا ذکر آیت «وَإِن كَادُوا لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الْأَرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا ۖ وَإِذًا لَّا يَلْبَثُونَ خِلَافَكَ إِلَّا قَلِيلًا» ‏‏‏‏ [ 17-الإسراء: 76 ] ‏‏‏‏ میں ہے ” اور قریب تھا کہ یہ لوگ تمہیں زمین [ مکہ ] ‏‏‏‏ سے پھسلا دیں تاکہ تمہیں وہاں سے جلا وطن کر دیں۔ اور اس وقت تمہارے پیچھے یہ بھی نہ رہتے مگر کم۔“

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف میں اللہ کے حکم کے منتظر تھے یہاں تک کہ قریشیوں نے جمع ہو کر مکر کا ارادہ کیا۔ جبرائیل علیہ اسللام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کر دی اور کہا کہ آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مکان میں نہ سوئیں جہاں سویا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بلا کر اپنے بسترے پر اپنی سبز چادر اوڑھا کر لیٹنے کو فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر آئے۔ قریش کے مختلف قبیلوں کا مقررہ جتھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دراوزے کو گھیرے کھڑا تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین سے ایک مٹھی مٹی اور کنکر بھر کر ان کے سروں اور آنکھوں میں ڈال کر سورۃ یاسین کی «يس وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ تَنزِيلَ الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أُنذِرَ آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلَىٰ أَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ إِنَّا جَعَلْنَا فِي أَعْنَاقِهِمْ أَغْلَالًا فَهِيَ إِلَى الْأَذْقَانِ فَهُم مُّقْمَحُونَ وَجَعَلْنَا مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ» [ 36-یس: 1-9 ] ‏‏‏‏ تک کی تلاوت کرتے ہوئے نکل گئے۔ [دلائل النبوۃ للبیھقی:469/2:معضل و ضعیف] ‏‏‏‏

صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتی ہوئی آئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ پیاری بیٹی کیوں رو رہی ہو؟ عرض کیا کہ ابا جی کیسے نہ روؤں یہ قریش خانہ کعبہ میں جمع ہیں لات و عزیٰ کی قسمیں کھا کر یہ طے کیا ہے کہ ہر قبیلے کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی اٹھ کھڑے ہوں اور ایک ساتھ حملہ کر کے قتل کر دیں تاکہ الزام سب پر آئے اور ایک بلوہ قرارپائے کوئی خاص شخص قاتل نہ ٹھہرے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیٹی پانی لاؤ پانی آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور مسجد الحرام کی طرف چلے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور دیکھتے ہی غل مچایا کہ لو وہ آ گیا اٹھو اسی وقت ان کے سر جھک گئے ٹھوڑیاں سینے سے لگ گئیں نگاہ اونچی نہ کر سکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مٹھی مٹی کی بھر کر ان کی طرف پھینکی اور فرمایا: یہ منہہ الٹے ہو جائیں گے یہ چہرے برباد ہو جائیں ،جس شخص پر ان کنکریوں میں سے کوئی کنکر پڑا وہ ہی بدر والے دن کفر کی حالت میں قتل کیا گیا۔ [مسند احمد:303/1:حسن] ‏‏‏‏

کسی نے کہا صبح کو اسے قید کر دو، کسی نے کہا مار ڈالو، کسی نے کہا دیس نکالا دے دو، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر مطلع فرما دیا۔

اس رات سیدنا علی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بسترے پر سوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکے سے نکل کھڑے ہوئے۔ غار میں جا کر بیٹھے رہے۔

مشرکین یہ سمجھ کر کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بسترے پر لیٹے ہوئے ہیں سار رات پہرہ دیتے رہے صبح سب کود کر اندر پہنچے دیکھا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں ساری تدبیر چوپٹ ہو گئی پوچھا کہ تمہارے ساتھی کہاں ہیں؟ آپ نے اپنی لاعلمی ظاہر کی۔

یہ لوگ قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے اس پہاڑ تک پہنچ گئے۔ وہاں سے پھر کوئی پتہ نہ چلا سکا۔ پہاڑ پر چڑھ گئے، اس غار کے پاس سے گذرے لیکن دیکھا کہ وہاں مکڑی کا جالا تنا ہوا ہے کہنے لگے اگر اس میں جاتے تو یہ جالا کیسے ثابت رہ جاتا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین راتین اسی غار میں گذاریں۔ [سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:1129] ‏‏‏‏

پس فرماتا ہے کہ ” انہوں نے مکر کیا میں بھی ان سے ایسی مضبوط چال چلا کہ آج تجھے ان سے بچا کر لے ہی آیا۔“