کہتے ہیں کہ یہ آیت ابولبابہ بن عبد المنذر رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتری ہے۔ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کے یہودیوں کے پاس بھیجا تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی شرط کے ماننے پر قلعہ خالی کر دیں ان یہودیوں نے آپ ہی سے مشورہ دریافت کیا تو آپ نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیر کر انہیں بتا دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ تمہارے حق میں یہی ہوگا۔
اب ابو لبابہ رضی اللہ عنہ بہت ہی نادم ہوئے کہ افسوس میں نے بہت برا کیا اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خیانت کی۔ اسی ندامت کی حالت میں قسم کھا بیٹھے کہ جب تک میری توبہ قبول نہ ہو میں کھانے کا ایک لقمہ بھی نہ اٹھاؤں گا چاہے مر ہی جاؤں۔ مسجد نبوی میں آ کر ایک ستون کے ساتھ اپنے تئیں بندھوا دیا نو دن اسی حالت میں گذر گئے غشی آ گئی بیہوش ہو کر مردے کی طرح گر پڑے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی توبہ قبول کر لی اور یہ آیتیں نازل ہوئیں لوگ آئے آپ کو خوشخبری سنائی اور اس ستون سے کھولنا چاہاتو انہوں نے فرمایا واللہ میں اپنے تئیں کسی سے نہ کھلواؤں گا بجز اس کے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ مبارک سے کھولیں۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لائے اور اپنے ہاتھ سے انہیں کھولا تو آپ عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے نذر مانی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول کر لے تو میں اپنا کل مال راہ للہ صدقہ کر دونگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نہیں صرف ایک تہائی فی سبیل اللہ دے دو یہی کافی ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:15937:مرسل]
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ امیر کو فتنہ و فساد کرکے قتل کردینا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیانت ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:15939:ضعیف]
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ابوسفیان مکے سے چلا جبر ئیل علیہ السلام نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ ابوسفیان فلاں جگہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ذکر کیا اور فرما دیا کہ اس طرف چلو لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہ کرنا ،لیکن ایک منافق نے اسے لکھ بھیجا کہ تیرے پکڑنے کے ارادے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا رہے ہیں ہوشیار رہنا۔
پس یہ آیت اتری لیکن یہ روایت بہت غریب ہے اور اس کی سند اور متن دونوں ہی قابل نظر ہیں۔
بخاری و مسلم میں حاطب بن ابو بلتعہ رضی اللہ عنہ کا قصہ ہے کہ فتح مکہ والے سال انہوں نے قریش کو خط بھیج دیا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے سے انہیں مطلع کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کر دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی ان کے پیچھے دوڑائے اور خط پکڑا گیا۔ حاطب رضی اللہ عنہ نے اپنے قصور کا اقرار کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی گردن مارنے کی اجازت چاہی کہ اس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں سے خیانت کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو یہ بدری صحابی ہے۔ تم نہیں جانتے بدری کی طرف اللہ تعالیٰ نے بذات خود فرما دیا ہے جو چاہو تم کرو میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔ [صحیح بخاری:3007]
میں کہتا ہوں کسی خاص واقعہ کے بارے میں اترنے کے باوجود الفاظ کی عمومیت اپنے حکم عموم پر ہی رہے گی یہی جمہور علماء کا قول ہے۔ خیانت عام ہے چھوٹے بڑے لازم متعدی سب گناہ خیانت میں داخل ہیں۔ اپنی امانتوں میں بھی خیانت نہ کرو یعنی فرض کو ناقص نہ کرو، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو نہ چھوڑو، اس کی نافرمانی نہ کرو۔
عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کسی کے سامنے اس کے حق کا اظہار کرنا اور درپردہ کرنا اس کے الٹ، باتیں کرنا اور کے سامنے اس کے خلاف کرنا بھی امانت کو ضائع کرنا اور اپنے نفس کی خیانت کرنا ہے۔
سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب کسی نے اللہ و رسول کی خیانت کی تو اس نے امانت داری میں رخنہ ڈال دیا، ایک صورت اس کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ بھی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی پھر اسے مشرکوں میں پھیلا دیا۔ پس منافقوں کے اس فعل سے مسلمانوں کو روکا جا رہا ہے۔
پھر فرماتا ہے کہ ” تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تمہارے امتحان کا باعث ہیں “۔ یہ دیکھیں آیا اللہ کا شکر کرتے ہو اور اس کی اطاعت کرتے ہو؟ یا ان میں مشغول ہو کر، ان کی محبت میں پھنس کر اللہ کی باتوں اور اس کی اطاعت سے ہٹ جاتے ہو؟ اسی طرح ہر خیرو شر سے اللہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے۔
اس کا ارشاد ہے کہ «إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ» [ 64-التغابن: 15 ] یعنی ” تمہارا مال اور تمہاری اولاد تو آزمائش ہے “، مسلمانو مال و اولاد کے چکر میں اللہ کی یاد نہ بھول جانا۔ ایسا کرنے والے نقصان پانے والے ہیں
اور آیت میں ہے کہ «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ» [ 64-التغابن: 14 ] ” تمہاری بعض بیویاں اور بعض اولادیں تمہاری دشمن ہیں، ان سے ہوشیار رہنا۔ سمجھ لو کہ اللہ کے پاس اجر یہاں کے مال و اولاد سے بہت بہتر ہیں اور بہت بڑے ہیں کیونکہ ان میں سے بعض تو دشمن ہی ہوتے ہیں اور اکثر بینفع ہوتے ہیں۔“
اللہ سبحانہ و تعالیٰ متصرف و مالک ہے، دنیا و آخرت اسی کی ہے قیامت کے ثواب اسی کے قبضے میں ہیں، ایک اثر میں فرمان الٰہی ہے کہ ” اے ابن آدم مجھے ڈھونڈ تو پائے گا، مجھے پالینا تمام چیزوں کو پالینا ہے، میرا فوت ہو جانا تمام چیزوں کا فوت ہو جانا ہے، میں تیری تمام چیزوں سے تیری محبت کا زیادہ حقدار ہوں۔ “
صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے تین چیزیں جس میں ہوں اس نے ایمان کی مٹھاس چکھ لی [1] جسے اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ پیارا ہو، [2] جو محض اللہ کے لیے دوستی رکھتا ہو اور [3] جسے آگ میں جل جانے سے بھی زیادہ برا ایمان کے بعد کفر کرنامعلوم ہوتا ہو۔
بلکہ یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بھی اولاد و مال اور نفس کی محبت پر مقدم ہے جیسے کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی باایمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کو اس کے نفس سے اور اہل سے اور مال سے اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔