قرآن مجيد

سورة الأعراف
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ[204]
اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور چپ رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔[204]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 204،

سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ٭٭

چونکہ اوپر کی آیت میں بیان تھا کہ یہ قرآن لوگوں کے لیے بصیرت و بصارت ہے اور ساتھ ہی ہدایت اور رحمت ہے۔ اس لیے اس آیت میں اللہ تعالیٰ جل و علا حکم فرماتا ہے کہ اس کی عظمت اور احترام کے طور پر اس کی تلاوت کے وقت کان لگا کر اسے سنو۔ ایسا نہ کرو جیسا کفار قریش نے کیا کہ وہ کہتے تھے «وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ» [41-فصلت:26] ‏‏‏‏ ” اس قران کو نہ سنو اور اس کے پڑھے جانے کے وقت شور و غل مچا دو۔ “

اس کی اور زیادہ تاکید ہو جاتی ہے جبکہ فرض نماز میں امام با آواز بلند قرأت پڑھتا ہو۔

جیسے کہ صحیح مسلم شریف میں سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ امام اقتداء کئے جانے کیلئے مقرر کیا گیا ہے۔ جب وہ تکبیر کہے، تم تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے، تم خاموش رہو۔ [صحیح مسلم:404] ‏‏‏‏

اسی طرح سنن میں بھی یہ حدیث بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مروی ہے۔ امام مسلم بن حجاج رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے اور اپنی کتاب میں نہیں لائے ـ

(‏‏‏‏یہ یاد رہے کہ اس حدیث میں جو خاموش رہنے کا حکم ہے، یہ صرف اس قرأت کے لئے ہے جو الحمد (‏‏‏‏سورۃ الفاتحہ) کے سوا ہو)۔

جیسے کہ طبرانی کبیر میں صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: «مَنْ صَلَّی خَلْفَ اَلاِمَاْم فَلیَقَرَْا بِفَاتِحَۃ الکِتَْابِ» یعنی جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو، وہ سورۃ فاتحہ ضرور پڑھ لے۔

پس سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم ہے اور قرأت کے وقت خاموشی کا حکم ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ (‏‏‏‏مترجم)

اس آیت کے شان نزول کے متعلق سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ پہلے نماز پڑھتے ہوئے باتیں بھی کر لیا کرتے تھے، تب یہ آیت اتری۔

اور دوسری آیت میں چپ رہنے کا حکم کیا گیا۔

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے ہم آپس میں ایک دوسرے کو سلام کیا کرتے تھے، پس یہ آیت اتری۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:15593:ضعیف] ‏‏‏‏ آپ نے ایک مرتبہ نماز میں لوگوں کو امام کے ساتھ ہی ساتھ پڑھتے ہوئے سن کر فارغ ہو کر فرمایا کہ تم اب تک اس با کو سمجھ نہیں سکے، جب قرآن پڑھا جائے تو اسے سنو اور چپ رہو۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:15592:ضعیف] ‏‏‏‏

(‏‏‏‏واضح رہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی رائے میں اس سے مراد امام کے با آواز بلند الحمد کے سوا دوسری قرأت کے وقت مقتدی کا خاموش رہنا ہے، نہ کہ پست آواز کی قرأت والی نماز میں، اور بلند آواز کی قرأت والی نماز میں الحمد سے خاموشی (‏‏‏‏نہیں مراد، کیونکہ) امام کے پیچھے الحمد تو خود آپ بھی پڑھا کرتے تھے۔ جیسے کہ جزاء القراۃ بخاری میں ہے: «انہ قرا فی العصر خلف الا مام فی الرکعتین الاولیین بام القران و سورۃ» یعنی آپ نے امام کے پیچھے عصر کی نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ الحمد بھی پڑھی اور دوسری سورت بھی ملائی۔ پس آپ کے مندرجہ بالا فرمان کا مطلب صرف اسی قدر ہے کہ جب امام اونچی آواز سے قرأت کرے تو مقتدی الحمد کے سوا دوسری قرأت کے وقت سنے اور چپ رہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ مترجم)

زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس انصاری نوجوان کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کی عادت تھی کہ جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سے کچھ پڑھتے، یہ بھی اسے پڑھتا۔ پس یہ آیت اتری۔

مسند احمد اور سنن میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز سے فارغ ہو کر پلٹے جس میں آپ نے باآواز بلند قرأت پڑھی تھی۔ پھر پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ پڑھا تھا؟ ایک شخص نے کہا: ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کہہ رہا تھا کہ یہ کیا بات ہے کہ مجھ سے قرآن کی چھینٹا جھپٹی ہو رہی ہے؟ [سنن ابوداود:826،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

راوی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان نمازوں میں جن میں آپ اونچی آواز سے قرأت پڑھا کرتے تھے، قرأت سے رک گئے جبکہ انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا۔

امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن کہتے ہیں اور ابوحاتم رازی اس کی تصحیح کرتے ہیں۔

(‏‏‏‏مطلب اس حدیث کا بھی یہی ہے کہ امام جب پکار کر قرأت پڑھے، اس وقت مقتدی سوائے الحمد کے کچھ نہ پڑھے کیونکہ ایسی ہی روایت ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، موطا امام مالک، مسند احمد وغیرہ میں ہے، جس میں ہے کہ جب آپ کے سوال کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم پڑھتے ہیں تو آپ نے فرمایا «لا تفعلوا الا بفاتحۃ فانہ لاصلوۃ لمن لم یقراء بھا» یعنی ایسا نہ کیا کرو، صرف سورۃ فاتحہ پڑھو کیونکہ جو اسے نہیں پڑھتا، اس کی نماز نہیں ہوتی۔ پس لوگ اونچی آواز والی قرأت کی نماز میں جس قرأت سے رک گئے، وہ الحمد کے علاوہ تھی کیونکہ اسی سے روکا تھا، اسی سے صحابہ رضی اللہ عنہم رک گئے۔ الحمد تو پڑھنے کا حکم دیا تھا، بلکہ ساتھ ہی فرما دیا تھا کہ اس کے بغیر نماز ہی نہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ مترجم)

زہری کا قول ہے کہ امام جب اونچی آواز سے قرأت پڑھے تو انہیں امام کی قرأت کافی ہے، امام کے پیچھے والے نہ پڑھیں۔ گو انہیں امام کی آواز سنائی بھی نہ دے۔ ہاں! البتہ جب امام آہستہ آواز سے پڑھ رہا ہو، اس وقت مقتدی بھی آہستہ پڑھ لیا کریں اور کسی کو لائق نہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ پڑھے، خواہ جہری نماز ہو خواہ سری۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو تم اسے سنو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ علماء کے ایک گروہ کا مذہب ہے کہ جب امام اونچی آواز سے قرأت کرے تو مقتدی پر نہ سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب ہے، نہ کچھ اور۔

امام شافعی رحمہ اللہ کے دو اقوال جن میں سے ایک قول یہ بھی ہے لیکن یہ ان کا پہلا قول ہے جیسے کہ امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب۔ ایک اور روایت میں امام احمد کا بہ سبب ان دلائل کے جن کا ذکر گزر چکا۔ یعنی نیا دوسرا قول آپ کا یہ ہے: مقتدی صرف سورۃ فاتحہ امام کے سکتوں کے درمیان پڑھ لے جبکہ صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین رحمۃ اللہ علیہم اور ان کے بعد والے گروہ کا بھی یہی فرمان ہے۔

امام ابوحنیفہ اور امام احمد فرماتے ہیں: مقتدی پر مطلقاً قرأت واجب نہیں، نہ اس نماز میں جس میں امام آہستہ قرأت پڑھے اور نہ اس میں جس میں بلند آواز سے قرأت پڑھے۔

اس لیے کہ حدیث میں ہے: امام کی قرأت مقتدیوں کی بھی قرأت ہے۔ [سنن ابن ماجه:850، قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

اسے امام احمد نے اپنی مسند میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔

یہی حدیث موطا امام مالک میں موقوفاً مروی ہے اور یہی صحیح ہے یعنی یہ قول سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا ہونا زیادہ صحیح ہے، نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان (‏‏‏‏لیکن یہ بھی یاد رہے کہ خود سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے ابن ماجہ میں مروی ہے کہ «کنا نقرا فی الظھر والعصر خلف الامام فی الرکعتین الاولیین بفاتحۃ الکتاب وسورۃ وفی الاخریین بفاتحۃ الکتاب» یعنی ہم ظہر اور عصر کی نماز میں امام کے پیچھے پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ بھی پڑھتے تھے اور کوئی اور سورت بھی اور پچھلی دو رکعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے جو فرمایا کہ امام کی قرأت اسے کافی ہے، اس سے مراد سورۃ الفاتحی کے علاوہ قرأت ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ مترجم)

یہ مسئلہ اور جگہ نہایت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اسی خاص مسئلے پر امام ابوعبداللہ بخاری رحمہ اللہ نے ایک مستقل رسالہ لکھا ہے اور اس میں ثابت کیا ہے کہ ہر نماز میں خواہ اس میں قرأت اونچی پڑھی جاتی ہو یا آہستہ، مقتدیوں پر سورۃ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: یہ آیت فرض نماز کے بارے میں ہے۔

طلحہ کا بیان ہے کہ عبید بن عمر اور عطاء بن ابی رباح کو میں نے دیکھا کہ واعظ وعظ کہہ رہا تھا اور وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے تو میں نے کہا: تم اس وعظ کو نہیں سنتے اور وعید کے قابل ہو رہے ہو؟ انہوں نے میری طرف دیکھا، پھر باتوں میں مشغول ہو گئے۔ میں نے پھر یہی کہا، انہوں نے پھر میری طرف دیکھا اور پھر باتوں میں مشغول ہو گئے۔ میں نے پھر یہی کہا، انہوں نے پھر میری طرف دیکھا اور پھر اپنی باتوں میں لگ گئے، میں نے پھر تیسری مرتبہ ان سے یہی کہا۔ تیسری بار انہوں نے میری طرف دیکھ کر فرمایا: یہ نماز کے بارے میں ہے۔

مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نماز کے سوا جب کوئی قرآن کریم پڑھ رہا ہو تو کلام کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اور بھی بہت سے بزرگوں کا فرمان ہے کہ مراد اس سے نماز میں ہے۔

مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ یہ آیت نماز اور جمعہ کے خطبے کے بارے میں ہے۔ عطاء رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نماز میں اور ذکر کے وقت۔

سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عید الاضحیٰ، عید الفطر، جمعہ کے دن اور جن نمازوں میں امام اونچی قرأت پڑھے۔

ابن جریر رحمہ اللہ کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ مراد اس سے نماز میں اور خطبے میں چپ رہنا ہے جیسے کہ حکم ہوا ہے۔ امام کے پیچھے خطبے کی حالت میں چپ رہو۔

مجاہد رحمہ اللہ نے اسے مکروہ سمجھا کہ جب امام خوف کی آیت یا رحمت کی آیت تلاوت کرے تو اس کے پیچھے سے کوئی شخص کچھ کہے بلکہ خاموشی کے لیے کہا۔ (‏‏‏‏حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی کسی خوف کی آیت سے گزرتے تو پناہ مانگتے اور جب کبھی کسی رحمت کے بیان والی آیت سے گزرتے تو اللہ سے سوال کرتے۔ مترجم)

حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب تو قرآن سننے بیٹھے تو اس کے احترام میں خاموش رہا کر۔

مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جو شخص کان لگا کر کتاب اللہ کی کسی آیت کو سنے تو اس کے لیے کثرت سے بڑھنے والی نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر اسے پڑھے تو اس کے لیے قیامت کے دن نور ہو گا۔ [مسند احمد:341/2:ضعیف] ‏‏‏‏