قرآن مجيد

سورة الأعراف
أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ[195]
کیا ان کے پائوں ہیں جن سے وہ چلتے ہیں، یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑتے ہیں، یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہیں، یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں؟ کہہ دے تم اپنے شریکوں کو بلا لو، پھر میرے خلاف تدبیر کرو، پس مجھے مہلت نہ دو۔[195]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 191، 192، 193، 194، 195، 196، 197، 198،

انسان کا المیہ خود ساز خدا اور اللہ سے دوری ہے ٭٭

جو لوگ اللہ کے سوا اوروں کو پوجتے ہیں، وہ سب اللہ کے ہی بنائے ہوئے ہیں، وہی ان کا پالنے والا ہے۔ وہ بالکل بے اختیار ہیں، کسی نفع نقصان کا انہیں اختیار نہیں، وہ اپنے پجاریوں کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے بلکہ وہ تو ہل جل بھی نہیں سکتے، دیکھ اور سن بھی نہیں سکتے۔

ان بتوں سے تو ان کے پجاری ہی توانا، تندرست اور اچھے ہیں کہ ان کی آنکھیں بھی ہیں، کان بھی ہیں۔ یہ بےوقوف تو انہیں پوجتے ہیں جنہوں نے ساری مخلوق میں سے ایک چیز کو بھی پیدا نہیں کیا بلکہ وہ خود اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔

جیسے اور جگہ ہے کہ «يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ مَا قَدَرُوا اللَّـهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللَّـهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ» [22-الحج:73-74] ‏‏‏‏ ” لوگو! آؤ ایک لطیف مثال سنو، تم جنہیں پکار رہے ہو، یہ سارے ہی جمع ہو کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو ان کی طاقت سے خارج ہے۔ بلکہ ان کی کمزوری تو یہاں تک ہے کہ کوئی مکھی ان کی کسی چیز کو چھین لے جائے تو یہ اس سے واپس بھی نہیں کر سکتے، طلب کرنے والے اور جن سے طلب کی جا رہی ہے، بہت ہی بودے ہیں۔ “

تعجب ہے کہ اتنے کمزوروں کی عبادت کی جاتی ہے جو اپنا حق بھی ایک مکھی سے نہیں لے سکتے، وہ تمہاری روزیوں اور مدد پر کیسے قادر ہوں گے؟

خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ «قَالَ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ» [37-الصافات:95] ‏‏‏‏ ” کیا تم ان کی عبادت کرتے ہو جنہیں تم خود ہی گھڑتے اور بناتے ہو؟ “

وہ نہ تو اپنے پجاریوں کی مدد کر سکتے ہیں، نہ خود اپنی ہی کوئی مدد کر سکتے ہیں۔

یہاں تک کہ «فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا إِلَّا كَبِيرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ» [21-الأنبياء:58] ‏‏‏‏ ” خلیل اللہ علیہ السلام نے انہیں توڑ توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ “

لیکن ان سے یہ نہ ہو سکا کہ اپنے آپ کو ان کے ہاتھ سے بچا لیتے۔ ہاتھ میں تبر لے کر سب کو چورا کر دیا اور ان معبودان باطل سے یہ بھی نہ ہو سکا کہ کسی طرح اپنا بچاؤ کر لیتے۔

خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی سیدنا معاذ بن عمرو بن جموح اور سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما یہی کام کرتے تھے کہ رات کے وقت چپکے سے جا کر مشرکین کے بت توڑ آتے اور جو لکڑی کے ہوتے، انہیں توڑ کر بیوہ عورتوں کو دے دیتے کہ وہ اپنا ایندھن بنا لیں اور قوم کے بت پرست عبرت حاصل کریں۔ خود معاذ رضی اللہ عنہ کا باپ عمرو بن جموح بھی بت پرست تھا، یہ دونوں نوجوان دوست وہاں بھی پہنچتے اور اس بت کو پلیدی سے آلودہ کر آتے۔ جب یہ آتا تو اپنے معبود کو اس حالت میں دیکھ کر بہت پیچ و تاب کھاتا، پھر دھوتا، پھر اس پر خوشبو ملتا۔

ایک مرتبہ اس نے اس کے پاس تلوار رکھ دی اور کہا: دیکھ! آج تیرا دشمن آئے تو اس تلوار سے اس کا کام تمام کر دینا۔ یہ اس رات بھی پہنچے اور اس کی درگت کر کے پاخانے سے لیپ کر کے چلے آئے مگر تاہم اسے اثر نہ ہوا، صبح کو اسی طرح اس نے دھو دھا کر ٹھیک ٹھاک کر کے خوشبو لگا کر بیٹھا کر ڈنڈوت کی یعنی (‏‏‏‏اٹھک بیٹھک) کی۔ جب ان دونوں نے دیکھا کہ کسی طرح یہ نہیں مانتا تو ایک رات اس بت کو اٹھا لائے اور ایک کتے کا پلا جو مرا پڑا تھا، اس کے گلے میں باندھ دیا اور محلے کے ایک کنویں میں ڈال دیا۔ صبح اس نے اپنے بت کو نہ پا کر تلاش کیا تو کنویں میں اسے نظر آیا کہ کتے کے مردہ بچے کے ساتھ پڑا ہوا ہے، اب اسے بت سے اور بت پرستی سے نفرت ہو گئی۔ اور اس نے کہا:

«تاللہ لو کنت الھا مستدن لم تک والکلب جمیعا فی قرن»

یعنی اگر تو سچ مچ معبود ہوتا تو کنوئیں میں کتے کے پلے کے ساتھ پڑا ہوا نہ ہوتا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہو گئے، پھر تو اسلام میں پورے پکے ہو گئے۔ احد کی لڑائی میں شریک ہوئے اور کفار کو قتل کرتے ہوئے شہید ہو گئے [سیرة ابن هشام:354/1] ‏‏‏‏ «رضی اللہ عنہ وارضاہ وجعل جنت الفردوس ماوا» ۔

انہیں اگر بلایا جائے تو یہ قبول کرنا تو درکنار، سن بھی نہیں سکتے۔ محض پتھر ہیں، بےجان ہیں، بےآنکھ اور بےکان ہیں۔ جیسے کہ خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ ” میرے والد! آپ ان کی عبادت کیوں کرتے ہیں، جو نہ سنیں، نہ دیکھیں، نہ تجھے کوئی نفع پہنچا سکیں، نہ تیرے کسی کام آ سکیں۔ “ [19-مريم:42] ‏‏‏‏ انہیں پکارنا اور نہ پکارنا دونوں برابر ہیں۔ یہ تو تم جیسے ہی بے بس اور اللہ کی مخلوق ہیں۔

بتاؤ تو کبھی انہوں نے تمہاری فریاد رسی کی ہے؟ یا کبھی تمہاری دعا کا جواب دیا ہے؟ حقیقت میں ان سے افضل و اعلیٰ تو تم خود ہو۔ تم سنتے، دیکھتے، چلتے پھرتے، بولتے چالتے ہو، یہ تو اتنا بھی نہیں کر سکتے۔

اچھا! تم ان سے میرا کچھ بگاڑنے کی درخواست کرو، میں اعلان کرتا ہوں کہ اگر ان سے ہو سکے تو بلاتامل اپنی پوری طاقت سے جو میرا بگاڑ سکتے ہوں، بگاڑ لیں۔

سنو! میں تو اللہ کو اپنا حمایتی اور مددگار سمجھتا ہوں، وہی میرا بچانے والا ہے اور وہ مجھے کافی وافی ہے۔ اسی پر میرا بھروسہ ہے، اسی سے میرا لگاؤ ہے۔

میں ہی نہیں، ہر نیک بندہ یہی کرتا ہے اور وہ بھی اپنے تمام سچے غلاموں کی نگہبانی اور حفاظت کرتا رہتا ہے اور کرتا رہے گا۔ میرے بعد بھی ان سب کا نگراں اور محافظ وہی ہے۔

ہود علیہ السلام سے آپ کی قوم نے کہا کہ ہمارا تو خیال ہے کہ تو جو ہمارے معبودوں پر ایمان نہیں رکھتا، اسی سبب سے انہوں نے تجھے ان مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ اس کے جواب میں اللہ کے پیغمبر نے فرمایا: سنو! تم کو اور اللہ کو گواہ کر کے علی الاعلان کہتا ہوں کہ میں اللہ کے سوا تمہارے تمام معبودوں سے بری اور بیزار اور ان سب کا دشمن ہوں، تم میرا کچھ بگاڑ سکتے ہو تو بگاڑ لو۔ تمہیں بھی قسم ہے جو ذرا سی کوتاہی کرو۔ میرا توکل اللہ کی ذات پر ہے۔ تمام جانداروں کی چوٹیاں اس کے ہاتھ ہیں، میرا رب ہی سچی راہ پر ہے۔

خلیل اللہ علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا تھا کہ تم اور تمہارے بزرگ جن کی تم پرستش کرتے ہو، میں ان سب کا دشمن ہوں اور وہ مجھ سے دور ہیں۔ سوائے اس رب العالمین کے، جس نے مجھے پیدا کیا، وہی میری رہبری کی۔

آپ نے اپنے والد اور قوم سے بھی یہی فرمایا کہ «وَإِذْ قَالَ إِبْرَ‌اهِيمُ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِي بَرَ‌اءٌ مِّمَّا تَعْبُدُونَ إِلَّا الَّذِي فَطَرَ‌نِي فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْ‌جِعُونَ» [43-الزخرف:26-28] ‏‏‏‏ ” میں تمہارے معبودان باطل سے بری اور بیزار ہوں، سوائے اس سچے معبود کے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، وہی میری رہبری کرے گا۔ ہم نے اسی کلمے کو اس کی نسل میں ہمیشہ کے لئے باقی رکھ دیا تاکہ لوگ اپنے باطل خیالات سے ہٹ جائیں۔ “

پہلے تو غائبانہ فرمایا تھا، پھر اور تاکید کے طور پر خطاب کر کے فرماتا ہے کہ جن جن کو اللہ کے سوا تم پکارتے ہو، وہ تمہاری امداد نہیں کر سکتے اور نہ وہ خود اپنا ہی کوئی نفع کر سکتے ہیں۔ یہ تو سن ہی نہیں سکتے، تجھے تو یہ آنکھوں والے دکھائی دیتے ہیں، لیکن دراصل ان کی اصلی آنکھیں ہی نہیں کہ کسی کو دیکھ سکیں۔

جیسے فرمان ہے کہ اگر تم انہیں پکارو تو وہ سنتے نہیں چونکہ وہ تصاویر اور بت ہیں، ان کی مصنوعی آنکھیں ہیں، محسوس تو یہ ہوتا ہے کہ وہ دیکھ رہے ہیں لیکن دراصل دیکھ نہیں رہے چونکہ وہ پتھر بصورت انسان ہیں، اس لیے ضمیر بھی ذی العقول کی لائے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد کفار ہیں لیکن اول ہی اولیٰ ہے، یہی امام ابن جریر اور قتادہ رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے۔