قرآن مجيد

سورة البقرة
أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ[107]
کیا تو نے نہیں جانا کہ اللہ ہی ہے جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور اللہ کے سوا تمھارا نہ کوئی دوست ہے اور نہ کوئی مدد گار۔[107]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 106، 107،

تبدیلی یا تنسیخ ، اللہ تعالٰی مختار کل ہے ٭٭

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نسخ کے معنی بدل کے ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:473/2] ‏‏‏‏ حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں مٹانے کے معنی ہیں۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:321/1] ‏‏‏‏ جو [ کبھی ] ‏‏‏‏ لکھنے میں باقی رہتا ہے اور حکم بدل جاتا ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد اور ابوالعالیہ اور محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:322/1] ‏‏‏‏

ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں بھلا دینے کے معنی ہیں عطا فرماتے ہیں چھوڑ دینے کے معنی ہیں سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں اٹھا لینے کے معنی ہیں جیسے «الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ إِذَا زَنَيَا فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ» یعنی زانی مرد و عورت کو سنگسار کر دیا کرو۔ [سنن نسائی:7145، قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ اور جیسے «لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ مَالٍ لَابْتَغَى وَادِيًا ثَالِثًا» [صحیح بخاری:6440] ‏‏‏‏ یعنی ابن آدم کو اگر دو جنگل سونے کے مل جائیں جب بھی وہ تیسرے کی جستجو میں رہے گا۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:324/1] ‏‏‏‏ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ احکام میں تبدیلی ہم کر دیا کرتے ہیں حلال کو حرام حرام کو حلال جائز کو ناجائز ناجائز کو جائز وغیرہ امر و نہی روک اور رخصت جائز اور ممنوع کاموں میں نسخ ہوتا ہے ہاں جو خبریں دی گئی ہیں واقعات بیان کئے گئے ہیں ان میں رد و بدل و ناسخ و منسوخ نہیں ہوتا۔

نسخ کے لفظی معنی نقل کرنے کے بھی ہیں جیسے کتاب کے ایک نسخے سے دوسرا نقل کر لینا۔ اسی طرح یہاں بھی چونکہ ایک حکم کے بدلے دوسرا حکم ہوتا ہے اس لیے نسخ کہتے ہیں خواہ وہ حکم کا بدل جانا ہو خواہ الفاظ کا۔ علماء اصول کی عبارتیں اس مسئلہ میں گو مختلف ہیں مگر معنی کے لحاظ سے سب قریب قریب ایک ہی ہیں۔ نسخ کے معنی کسی حکم شرعی کا پچھلی دلیل کی رو سے ہٹ جانا ہے کبھی ہلکی چیز کے بدلے بھاری اور کبھی بھاری کے بدلہ ہلکی اور کبھی کوئی بدل ہی نہیں ہوتا ہے نسخ کے احکام اس کی قسمیں اس کی شرطیں وغیرہ ہیں اس کے لیے اس فن کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیئے تفصیلات کی بسط کی جگہ نہیں طبرانی میں ایک روایت ہے کہ دو شخصوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سورت یاد کی تھی اسے وہ پڑھتے رہے ایک مرتبہ رات کی نماز میں ہر چند اسے پڑھنا چاہا لیکن یاد نے ساتھ نہ دیا گھبرا کر خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ منسوخ ہو گئی اور بھلا دی گئی دلوں میں نکال لی گئی تم غم نہ کرو۔ بے فکر ہو جاؤ۔

حضرت زہری رحمہ اللہ نون خفیفہ پیش کے ساتھ پڑھتے تھے اس کے ایک راوی سلیمان بن ارقم ضعیف ہیں۔ [مجمع الذوائد:11592] ‏‏‏‏ ابوبکر انباری نے بھی دوسری سند سے اسے مرفوع روایت کیا ہے۔ [تفسیر قرطبی:62/2-619] ‏‏‏‏ جیسے قرطبی رحمہ اللہ کا کنا ہے۔ «ننسھا» کو «ننساھا» بھی پڑھا گیا ہے۔ «ننساھا» کے معنی مؤخر کرنے پیچھے ہٹا دینے کے ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں یعنی ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں منسوخ کرتے ہیں ابن کے شاگرد کہتے ہیں یعنی ہم اس کے الفاظ کو باقی رکھتے ہیں لیکن حکم کو بدل دیتے ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:473/2] ‏‏‏‏ عبد بن عمیر، مجاہد، اور عطا رحمہ اللہ علیہم سے مروی ہے ہم اسے مؤخر کرتے ہیں اور ملتوی کرتے ہیں عطیہ عوفی رحمہ اللہ کہتے ہیں۔ یعنی منسوخ نہیں کرتے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:477/2] ‏‏‏‏ سدی اور ربیع رحمہ اللہ علیہما بھی یہی کہتے ہیں ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ناسخ کو منسوخ کے پیچھے رکھتے ہیں ابوالعالیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں اپنے پاس اسے روک لیتے ہیں عمر نے خطبہ میں «نُنٗسِھَا» پڑھا اور اس کے معنی مؤخر ہونے کے بیان کئے «ننسھا» جب پڑھیں تو یہ مطلب ہو گا کہ ہم اسے بھلا دیں۔ اللہ تعالیٰ جس حکم کو اٹھا لینا چاہتا تھا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھلا دیتا تھا اس طرح وہ آیت اٹھ جاتی تھی۔

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ «ننسھا» پڑھتے تھے تو ان سے قسم بن ربیعہ رحمہ اللہ نے کہا کہ سعید بن مسیب رحمہ اللہ تو «ننساھا» پڑھتے ہیں تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا سعید پر یا سعید کے خاندان پر تو قرآن نہیں اترا؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت «سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰٓى» [ 87۔ الاعلی: 6 ] ‏‏‏‏ ہم تجھے پڑھائیں گے جسے تو نہ بھولے گا اور فرماتا ہے آیت «وَاذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيْتَ» [ 18۔ الکہف: 24 ] ‏‏‏‏ جب بھول جائے تو اپنے رب کو یاد کر۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں اور ابی رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ اچھے قرآن کے قاری ہیں اور ہم ابی رضی اللہ عنہ کا قول چھوڑ دیتے ہیں اس لیے کہ ابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے تو جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اسے نہیں چھوڑوں گا اور فرماتے ہیں «مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا» [ البقرہ: 106 ] ‏‏‏‏ یعنی ہم جو منسوخ کریں یا بھلا دیں اس سے بہتر لاتے ہیں یا اس جیسا [صحیح بخاری:4481] ‏‏‏‏ اس سے بہتر ہوتا ہے یعنی بندوں کی سہولت اور ان کے آرام کے لحاظ سے یا اس جیسا ہوتا ہے لیکن مصلحت الٰہی اس سابقہ چیز میں ہوتی ہے۔

مخلوق میں تغیر و تبدل کرنے والا پیدائش اور حکم کا اختیار رکھنے والا۔ ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے جس طرح جسے چاہتا ہے بناتا ہے جسے چاہے نیک بختی دیتا ہے جسے چاہے بدبختی دیتا ہے جسے چاہے تندرستی جسے چاہے بیماری، جسے چاہے توفیق جسے چاہے بے نصیب کر دے۔ بندوں میں جو حکم چاہے جاری کرے جسے چاہے حلال جسے چاہے حرام فرما دے جسے چاہے رخصت دے جسے چاہے روک دے وہ حاکم مطلق ہے جیسے چاہے احکام جاری فرمائے کوئی اس کے حکم کو رد نہیں کر سکتا جو چاہے کرے کوئی اس سے بازپرس نہیں کر سکتا وہ بندوں کو آزماتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ نبیوں اور رسولوں کے کیسے تابعدار ہیں کسی چیز کا کسی مصلحت کی وجہ سے حکم دیا پھر مصلحت کی وجہ سے ہی اس کو ہٹا دیا اب آزمائش ہو جاتی ہے نیک لوگ اس وقت بھی اطاعت کے لیے کمربستہ تھے اور اب بھی ہیں لیکن بدباطن لوگ باتیں بناتے ہیں اور ناک بھوں چڑھاتے ہیں حالانکہ تمام مخلوق کو اپنے خالق کی تمام باتیں ماننی چاہئیں اور ہر حال میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنی چاہیئے اور جو وہ کہے اسے دل سے سچا ماننا چاہیئے، جو حکم دے بجا لانا چاہیئے جس سے روکے رک جانا چاہیئے۔

اس مقام پر بھی یہودیوں کا زبردست رد ہے اور ان کے کفر کا بیان ہے کہ وہ نسخ کے قائل نہ تھے بعض تو کہتے تھے اس میں عقلی محال لازم آتا ہے اور بعض نقلی محال بھی مانتے تھے اس آیت میں گو خطاب فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے مگر دراصل یہ کلام یہودیوں کو سنانا ہے جو انجیل کو اور قرآن کو اس وجہ سے نہیں مانتے تھے کہ ان میں بعض احکام توراۃ کے منسوخ ہو گئے تھے اور اسی وجہ سے وہ ان نبیوں کی نبوت کے بھی منکر ہو گئے تھے اور صرف عناد و تکبر کی بنا تھی ورنہ عقلاً نسخ محال نہیں اس لیے کہ جس طرح وہ اپنے کاموں میں با اختیار رہے اسی طرح اپنے حکموں میں بھی با اختیار رہے جو چاہے اور جب چاہے پیدا کرے جسے چاہے اور جس طرح چاہے اور جس وقت چاہے رکھے۔ اسی طرح جو چاہے اور جس وقت چاہے حکم دے اس حاکموں کے حاکم کا حاکم کون؟ اسی طرح نقلاً بھی یہ ثابت شدہ امر ہے اگلی کتابوں اور پہلی شریعتوں میں موجود ہے۔

حضرت آدم کی بیٹیاں بیٹے آپس میں بھائی بہن ہوتے تھے لیکن نکاح جائز تھا پھر اسے حرام کر دیا نوح علیہ السلام جب کشتی سے اترتے ہیں تب تمام حیوانات کا کھانا حلال تھا لیکن پھر بعض کی حلت منسوخ ہو گئی دو بہنوں کا نکاح اسرائیل اور ان کی اولاد پر حلال تھا لیکن پھر توراۃ میں اور اس کے بعد حرام ہو گیا ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی قربانی کا حکم دیا پھر قربان کرنے سے پہلے ہی منسوخ کر دیا بنو اسرائیل کو حکم دیا جاتا ہے کہ بچھڑا پوجنے میں جو شامل تھے سب اپنی جانوں کو قتل کر ڈالیں لیکن پھر بہت سے باقی تھے کہ یہ حکم منسوخ ہو جاتا ہے اسی طرح کے اور بہت سے واقعات موجود ہیں اور خود یہودیوں کو ان کا اقرار ہے لیکن پھر بھی قرآن اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہہ کر نہیں مانتے کہ اس سے اللہ کے کلام میں نسخ لازم آتا ہے اور وہ محال ہے۔

بعض لوگ جو اس کے جواب میں لفظی بحثوں میں پڑ جاتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ اس سے دلالت نہیں بدلتی اور مقصود وہی رہتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت یہ لوگ اپنی کتابوں میں پاتے تھے آپ کی تابعداری کا حکم بھی دیکھتے تھی یہ بھی معلوم تھا کہ آپ کی شریعت کے مطابق جو عمل نہ ہو وہ مقبول نہیں ہو گا یہ اور بات ہے کہ کوئی کہے کہ اگلی شریعتیں صرف آپ کے آنے تک ہی تھیں اس لیے یہ شریعت ان کی ناسخ نہیں یا کہے کہ ناسخ ہے بہر صورت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری کتاب اللہ کے پاس سے ابھی ابھی لے کر آئے ہیں پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نسخ کے جواز کو بیان فرما کر اس ملعون گروہ یہود کا رد کیا۔

سورۃ آل عمران میں بھی جس کے شروع میں بنی اسرائیل کو خطا کیا گیا ہے نسخ کے واقع ہونے کا ذکر موجود ہے فرماتا ہے آیت «كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَىٰ نَفْسِهِ مِن قَبْلِ أَن تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ» [ 3-آل عمران: 93 ] ‏‏‏‏ یعنی سبھی کھانے بنی اسرائیل پر حلال تھے مگر جس چیز کو اسرائیل علیہ السلام نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا اس کی مزید تفسیر وہیں آئے گی ان شاءاللہ تعالیٰ مسلمان کل کے کل متفق ہیں کہ احکام باری تعالیٰ میں نسخ کا ہونا جائز ہے بلکہ واقع بھی ہے اور پروردگار کی حکمت بالغہ کا دستور بھی یہی ہے ابو مسلم اصبہانی مفسر نے لکھا ہے کہ قرآن میں نسخ واقع نہیں ہوتا لیکن اس کا یہ قول ضعیف اور مردود اور محض غلط اور جھوٹ ہے جہاں نسخ قرآن موجود ہے اس کے جاب میں گو بعض نے بہت محنت سے اس کی تردید کی ہے لیکن محض بےسود دیکھیے پہلے اس عورت کی عدت جس کا خاوند مر جائے ایک سال تھی لیکن پھر چار مہینے دس دن ہوئی اور دونوں آیتیں قرآن پاک میں موجود ہیں قبلہ پہلے بیت المقدس تھا۔ پھر کعبۃ اللہ ہوا اور دوسری آیت صاف اور پہلا حکم بھی ضمناً مذکور ہے پہلے کے مسلمانوں کو حکم تھا کہ ایک ایک مسلمان دس دس کافروں سے لڑے اور ان کے مقابلے سے نہ ہٹے لیکن یہ پھر حکم منسوخ کر کے دو دو کے مقابلہ میں صبر کرنے کا حکم ہوا اور دونوں آیتیں کلام اللہ میں موجود ہیں پہلے حکم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنے سے پہلے کچھ صدقہ دیا کرو پھر یہ حکم منسوخ ہوا اور دونوں آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں وغیرہ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔