قرآن مجيد

سورة الأعراف
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ[179]
اور بلاشبہ یقینا ہم نے بہت سے جن اور انسان جہنم ہی کے لیے پیدا کیے ہیں، ان کے دل ہیں جن کے ساتھ وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنتے نہیں، یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں، بلکہ یہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں، یہی ہیں جو بالکل بے خبر ہیں۔[179]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 179،

اللہ تعالٰی عالم الغیب ہے ٭٭

بہت سے انسان اور جن جہنمی ہونے والے ہیں اور ان سے ویسے ہی اعمال سرزد ہوتے ہیں۔ مخلوق میں سے کون کیسے عمل کرے گا؟ یہ علام الغیوب کو ان کی پیدائش سے پہلے ہی معلوم ہوتا ہے، پس اپنے علم کے مطابق اپنی کتاب میں آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار برس پہلے ہی لکھ لیا۔ جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا۔ یہ صحیح مسلم شریف کی حدیث ہے۔ [صحیح مسلم:2653] ‏‏‏‏

ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری نابالغ بچے کے جنازے پر بلوائے گئے تو میں نے کہا: مبارک ہو اس کو، یہ تو جنت کی چڑیا ہے۔ نہ برائی کی، نہ برائی کا وقت پایا۔ آپ نے فرمایا: کچھ اور بھی؟ سن! اللہ تعالیٰ نے جنت اور جنت والوں کو پیدا کیا ہے اور انہیں جنتی مقرر کر دیا ہے حالانکہ وہ ابھی تو اپنے باپوں کی پیٹھوں میں ہی تھے۔ اسی طرح اس نے جہنم بنائی ہے اور اس کے رہنے والے پیدا کئے ہیں۔ انہیں اسی لیے مقرر کر دیا۔ درآں حالیکہ اب تک وہ اپنے باپوں کی پشت میں ہی ہیں۔ [صحیح مسلم:2662] ‏‏‏‏

بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے: ماں کے رحم میں اللہ تعالیٰ اپنا فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کے حکم سے چاروں چیزوں یعنی روزی، عمل، عمر اور نیکی یا بدی لکھ لیتا ہے۔ [صحیح بخاری:3208] ‏‏‏‏

یہ بھی بیان گزر چکا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو پشت آدم سے نکالا تو ان کے دو حصے کر دیئے، دائیں والے اور بائیں والے۔ اور فرما دیا: یہ جنتی ہیں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں اور یہ جہنمی ہیں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں۔

اس بارے میں بہت سی حدیثیں ہیں اور تقدیر کا مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں کہ یہاں پورا بیان ہو جائے۔ یہاں مقصد یہ ہے کہ ایسے خالی از خیر محروم قسمت لوگ کسی چیز سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ تمام اعضاء ہوتے ہیں لیکن قوتیں سب سے چھن جاتی ہیں۔ اندھے، بہرے، گونگے بن کر زندگی گڑھے میں ہی گزار دیتے ہیں۔ اگر ان میں خیر باقی ہوتی تو اللہ اپنی باتیں انہیں سناتا بھی۔ یہ تو خیر سے بالکل خالی ہو گئے، سنتے ہیں اور ان سنی کر جاتے ہیں۔ آنکھیں ہی نہیں بلکہ دل کی آنکھیں اندھی ہو گئی ہیں۔

رحمان کے ذکر سے منہ موڑنے کی سزا یہ ملی ہے کہ شیطان کے بھائی بن گئے ہیں، راہ حق سے دور جا پڑے ہیں مگر سمجھ یہی رہے ہیں کہ ہم سچے اور صحیح راستے پر ہیں۔ ان میں اور چوپائے جانوروں میں کوئی فرق نہیں۔ نہ یہ حق کو دیکھیں، نہ ہدایت کو دیکھیں، نہ اللہ کی باتوں کو سوچیں۔

چوپائے بھی تو اپنے حواس کو دنیا کے کام میں لاتے ہیں، اسی طرح یہ بھی فکر عقبیٰ سے، ذکر رب سے، راہ مولا سے غافل، گونگے اور اندھے ہیں۔ جیسے فرمان ہے «وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ» [2-البقرة:171] ‏‏‏‏ یعنی ” ان کافروں کی مثال تو اس شخص کی سی ہے جو اس کے پیچھے چلا رہا ہے جو درحقیقت سنتی ونتی خاک بھی نہیں۔ ہاں! صرف شور و غل تو اس کے کان میں پڑتا ہے۔ “

چوپائے آواز تو سنتے ہیں لیکن کیا کہا؟ اسے سمجھے ان کی بلا۔ پھر ترقی کر کے فرماتا ہے کہ یہ ظالم تو چوپایوں سے بھی بدترین ہیں کہ چوپائے گو نہ سمجھیں لیکن آواز پر کان تو کھڑے کر دیتے ہیں، اشاروں پر حرکت تو کرتے ہیں، یہ تو اپنے مالک کو اتنا بھی نہیں سمجھتے۔ اپنی پیدائش کی غایت کو آج تک معلوم ہی نہیں کیا، جبھی تو اللہ سے کفر کرتے ہیں اور غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف جو اللہ کا مطیع انسان ہو، وہ اللہ کے اطاعت گزار فرشتے سے بہتر ہے اور کفار انسان سے چوپائے جانور بہتر ہیں، ایسے لوگ پورے غافل ہیں۔