قرآن مجيد

سورة الأعراف
سَاءَ مَثَلًا الْقَوْمُ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَأَنْفُسَهُمْ كَانُوا يَظْلِمُونَ[177]
برے ہیں وہ لوگ مثال کی رو سے جنھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے رہے۔[177]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 175، 176، 177،

بلعم بن باعورا ٭٭

مروی ہے کہ جس کا واقعہ ان آیتوں میں بیان ہو رہا ہے اس کا نام بلعم بن باعوراء ہے۔ یہ بھی کہ کہا گیا ہے کہ اس کا نام صیفی بن راہب تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بلقاء کا ایک شخص تھا جو اسم اعظم جانتا تھا اور جبارین کے سات بیت المقدس میں رہا کرتا تھا۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ یمنی شخص تھا جس نے کلام اللہ کو ترک کر دیا تھا۔ یہ شخص بنی اسرائیل کے علماء میں سے تھا، اس کی دعا مقبول ہو جایا کرتی تھی۔ بنی اسرائیل سختیوں کے وقت اسے آگے کر دیا کرتے تھے، اللہ اس کی دعا مقبول فرما لیا کرتا تھا۔ اسے موسیٰ علیہ السلام نے مدین کے بادشاہ کی طرف اللہ کے دین کی دعوت دینے کے لئے بھیجا تھا۔ اس عقلمند بادشاہ نے اسے مکر و فریب سے اپنا کر لیا، اس کے نام کئی گاؤں کر دیئے اور بہت کچھ انعام و اکرام دیا۔ یہ بد نصیب دین موسوی کو چھوڑ کر اس کے مذہب میں جا ملا۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا نام بلعام تھا۔ یہ بھی ہے کہ یہ امیہ بن ابوصلت ہے۔ ممکن ہے کہ یہ کہنے والے کی یہ مراد ہو کہ یہ امیہ بھی اسی کے مشابہ تھا، اسے بھی اگلی شریعتوں کا علم تھا لیکن یہ ان سے فائدہ نہ اٹھا سکا۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کو بھی اس نے پایا، آپ کی آیات و بینات دیکھیں، معجزے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے، ہزارہا کو دین حق میں داخل ہوتے دیکھا، لیکن مشرکین کے میل جول، ان میں امتیاز، ان میں دوستی اور وہاں کی سرداری کی ہوس نے اسے اسلام اور قبول حق سے روک دیا۔ اسی نے بدری کافروں کے ماتم میں مرثیے کہے، «لعنتہ اللہ» ۔

بعض احادیث میں وارد ہے کہ اس کی زبان تو ایمان لا چکی تھی لیکن دل مومن نہیں ہوا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس شخص سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ اس کی تین دعائیں جو بھی یہ کرے گا، مقبول ہوں گی۔ اس کی بیوی نے ایک مرتبہ اس سے کہا کہ ان تین دعاؤں میں سے ایک دعا میرے لیے کر۔ اس نے منظور کر لیا اور پوچھا: کیا دعا کرانا چاہتی ہو؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس قدر حسن و خوبصورتی عطا فرمائے کہ مجھ سے زیادہ حسین عورت بنی اسرائیل میں کوئی نہ ہو۔

اس نے دعا کی اور وہ ایسی ہی حسین ہو گئی۔ اب تو اس نے پر نکالے اور اپنے میاں کو محض بے حقیقت سمجھنے لگی، بڑے بڑے لوگ اس کی طرف جھکنے لگے اور یہ بھی ان کی طرف مائل ہو گئی۔ اس سے یہ بہت کڑھا اور اللہ سے دعا کی کہ یااللہ! اسے کتیا بنا دے۔ یہ بھی منظور ہوئی، وہ کتیا بن گئی۔ اب اس کے بچے آئے، انہوں نے گھیر لیا کہ آپ نے غضب کیا۔ لوگ ہمیں طعنہ دیتے ہیں اور ہم کتیا کے بچے مشہور ہو رہے ہیں۔ آپ دعا کیجئے کہ اللہ اسے اس کی اصلی حالت میں پھر سے لا دے۔ اس نے وہ تیسری دعا بھی کر لی، تینوں دعائیں یوں ہی ضائع ہو گئیں اور یہ خالی ہاتھ بےخیر رہ گیا۔ [الدر المنشور للسیوطی:266/3:ضعیف] ‏‏‏‏

مشہور بات تو یہی ہے کہ بنی اسرائیل کے بزرگوں میں سے یہ ایک شخص تھا۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ یہ نبی تھا۔ یہ محض غلط ہے، بالکل جھوٹ ہے اور کھلا افترا ہے۔

مروی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام جب قوم جبارین سے لڑائی کے لیے بنی اسرائیل کی ہمراہی میں گئے، انہی جبارین میں بلعام نامی یہ شخص تھا، اس کی قوم اور اس کے قرابت دار چچا وغیرہ سب اس کے پاس آئے اور کہا کہ موسیٰ علیہ السلام اور اس کی قوم کے لیے آپ بد دعا کیجئے۔ اس نے کہا: یہ نہیں ہو سکتا، اگر میں ایسا کروں گا تو میری دنیا و آخرت دونوں خراب ہو جائیں گی لیکن قوم سر ہو گئی۔ یہ بھی لحاظ مروت میں آ گیا۔ بد دعا کی، اللہ تعالیٰ نے اس سے کرامت چھین لی اور اسے اس کے مرتبے سے گرا دیا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:122/6] ‏‏‏‏

سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب بنی اسرائیل کو وادی تیہ میں چالیس سال گزر گئے تو اللہ تعالیٰ نے یوشع بن نون علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا۔ انہوں نے فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہیں لے کر جاؤں اور ان جبارین سے جہاد کروں۔ یہ آمادہ ہو گئے، بیعت کر لی۔ انہی میں بلعام نامی ایک شخص تھا جو بڑا عالم تھا، اسم اعظم جانتا تھا۔ یہ بد نصیب کافر ہو گیا، قوم جبارین میں جا ملا اور ان سے کہا: تم نہ گھبراؤ۔ جب بنی اسرائیل کا لشکر آ جائے گا، میں ان پر بد دعا کروں گا تو وہ دفعتاً ہلاک ہو جائے گا۔ اس کے پاس تمام دنیوی ٹھاٹھ تھے لیکن عورتوں کی عظمت کی وجہ سے یہ ان سے نہیں ملتا تھا بلکہ ایک گدھی پال رکھی تھی۔ اسی بد قسمت کا ذکر اس آیت میں ہے۔ شیطان اس پر غالب آ گیا، اسے اپنے پھندے میں پھانس لیا۔ جو وہ کہتا تھا، یہ کرتا تھا۔ آخر ہلاک ہو گیا۔

مسند ابویعلیٰ موصلی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم پر سب سے زیادہ اس سے ڈرتا ہوں جو قران پڑھ لے گا، جو اسلام کی چادر اوڑھے ہوئے ہو گا اور دینی ترقی پر ہو گا کہ ایک دم اس سے ہٹ جائے گا، اسے پس پشت ڈال دے گا، اپنے پڑوسی پر تلوار لے دوڑے گا اور اسے شرک کی تہمت لگائے گا۔ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مشرک ہونے کے زیادہ قابل کون ہو گا؟ یہ تہمت لگانے والا یا وہ جسے تہمت لگا رہا ہے؟ فرمایا: نہیں بلکہ تہمت دھرنے والا۔ [المطالب العالیہ لابن حجر:273/4-274] ‏‏‏‏

پھر فرمایا کہ اگر ہم چاہتے تو قادر تھے کہ اسے بلند مرتبے پر پہنچائیں، دنیا کی آلائشوں سے پاک رکھیں، اپنی دی ہوئی آیتوں کی تابعداری پر قائم رکھیں لیکن وہ دنیوی لذتوں کی طرف جھک پڑا یہاں تک کہ شیطان کا پورا مرید ہو گیا، اسے سجدہ کر لیا۔

کہتے ہیں کہ اس بلعام سے لوگوں نے درخواست کی کہ آپ موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے حق میں بد دعا کیجئے۔ اس نے کہا: اچھا! میں اللہ سے حکم لے لوں۔ جب اس نے اللہ تعالیٰ سے مناجات کی تو اسے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل مسلمان ہیں اور ان میں اللہ کے نبی موجود ہیں۔ اس نے سب سے کہا کہ مجھے بد دعا کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ انہوں نے بہت سارے تحفے تحائف جمع کر کے اسے دیئے، اس نے سب رکھ لیے۔ پھر دوبارہ درخواست کی کہ ہمیں ان سے بہت خوف ہے، آپ ضرور ان پر بد دعا کیجئے۔ اس نے جواب دیا کہ جب تک میں اللہ تعالیٰ سے اجازت نہ لے لوں، میں ہرگز یہ نہ کروں گا۔ اس نے پھر اللہ سے مناجات کی لیکن اسے کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ اس نے یہی جواب انہیں دیا تو انہوں نے کہا: دیکھو! اگر منع ہی مقصود ہوتا تو آپ کو روک دیا جاتا جیسا کہ اس سے پہلے روک دیا گیا۔

اس کی بھی سمجھ میں آ گیا، اٹھ کر بد دعا شروع کی۔ اللہ کی شان سے بد دعا ان پر کرنے کے بجائے اس کی زبان سے اپنی ہی قوم کے لیے بد دعا نکلی اور جب اپنی قوم کی فتح کی دعا مانگنا چاہتا تو بنی اسرائیل کی فتح و نصرت کی دعا نکلتی۔ قوم نے کہا: آپ کیا غضب کر رہے ہیں؟ اس نے کہا: کیا کروں؟ میری زبان میرے قابو میں نہیں۔ سنو! اگر سچ مچ میری زبان سے ان کے لیے بد دعا نکلی تو قبول نہ ہو گی۔ سنو! اب میں تمہیں ایک ترکیب بتاتا ہوں، اگر تم اس میں کامیاب ہو گئے تو سمجھ لو کہ بنی اسرائیل برباد ہو جائیں گے۔ تم اپنی نوجوان لڑکیوں کو بناؤ سنگھار کرا کے ان کے لشکروں میں بھیجو اور انہیں ہدایت کر دو کہ کوئی ان کی طرف جھکے تو یہ انکار نہ کریں۔ ممکن ہے کہ بوجہ مسافرت یہ لوگ زناکاری میں مبتلا ہو جائیں۔ اگر یہ ہوا تو چونکہ حرام کاری اللہ کو سخت ناپسند ہے، اسی وقت ان پر عذاب آ جائے گا اور یہ تباہ ہو جائیں گے۔ ان بےغیرتوں نے اس بات کو مان لیا اور یہی کیا۔

خود بادشاہ کی بڑی حسین و جمیل لڑکی بھی بن ٹھن کر نکلی۔ اسے ہدایت کر دی تھی کہ سوائے موسیٰ علیہ السلام کے اور کسی کو اپنا نفس نہ سونپے۔ یہ عورتیں جب بنی اسرائیل کے لشکر میں پہنچیں تو عام لوگ بےقابو ہو گئے، حرام کاری سے بچ نہ سکے۔

شہزادی بنی اسرائیل کے ایک سردار کے پاس پہنچی، اس سردار نے اس لڑکی پر ڈورے ڈالے لیکن اس لڑکی نے انکار کیا۔ اس نے بتایا کہ میں فلاں فلاں ہوں، اس نے اپنے باپ سے یا بلعام سے پچھوایا، اس نے اجازت دی۔

یہ خبیث اپنا منہ کالا کر رہا تھا جسے ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے کسی صاحب نے دیکھ لیا، اپنے نیزے سے ان دونوں کو پرو دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے دست و بازی قوی کر دیئے، اس نے یونہی ان دونوں کو چھدے ہوئے اٹھا لیا۔ لوگوں نے بھی انہیں دیکھ لیا۔

اب اس لشکر پر عذاب رب بشکل طاعون آیا اور ستر ہزار آدمی فوراً ہلاک ہو گئے۔ بلعام اپنی گدھی پر سوار ہو کر چلا، وہ ایک ٹیلے پر چڑھ کر رک گئی۔ اب بلعام اسے مارتا پیٹتا ہے لیکن وہ قدم نہیں اٹھاتی۔ آخر گدھی نے اس کی طرف دیکھا اور کہا: مجھے کیوں مارتا ہے، سامنے دیکھ کون ہے؟ اس نے دیکھا تو شیطان لعین کھڑا ہوا تھا، یہ اتر پڑا اور سجدے میں گر گیا۔ الغرض ایمان سے خالی ہو گیا۔

اس کا نام یا تو بلعام تھا یا بلعم بن باعوراء یا ابن ابر یا ابن باعور بن شہتوم بن قوشتم بن مآب بن لوط بن ہاران یا ابن حران بن آزر۔ یہ بلقا کا رئیس تھا، اسم اعظم جانتا تھا لیکن اخیر میں دین حق سے ہٹ گیا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

ایک روایت میں ہے کہ قوم کے زیادہ کہنے سننے سے جب یہ اپنی گدھی پر سوار ہو کر بد دعا کے لیے چلا تو اس کی گدھی بیٹھ گئی۔ اس نے اسے مار پیٹ کر اٹھایا، کچھ دور چل کر پھر بیٹھ گئی۔ اس نے اسے پھر مار پیٹ کر اٹھایا، اسے اللہ نے زبان دی۔ اس نے کہا: تیرا ناس جائے! تو کہاں اور کیوں جا رہا ہے؟ اللہ کے مقابلے کو، اس کے رسول سے لڑنے اور مومنوں کو نقصان دلانے جا رہا ہے؟ دیکھو تو سہی! فرشتے میری راہ روکے کھڑے ہیں۔ اس نے پھر بھی کچھ خیال نہ کیا، آگے بڑھ گیا۔

حبان نامی پہاڑی پر چڑھ گیا جہاں سے بنو اسرائیل کا لشکر سامنے ہی نظر آتا تھا۔ اب ان کے لئے بد دعا اور اپنی قوم کے لیے دعائیں کرنے لگا لیکن زبان الٹ گئی، دعا کی جگہ بد دعا اور بد دعا کی جگہ دعا نکلنے لگی۔ قوم نے کہا: کیا کر رہے ہو؟ کہا بےبس ہوں۔

اسی وقت اس کی زبان نکل پڑی، سینے پر لٹکنے لگی۔ اس نے کہا: لو میری دنیا بھی خراب ہوئی اور دین تو بالکل برباد ہو گیا۔ پھر اس نے خوبصورت لڑکیاں بھیجنے کی ترکیب بتائی جیسے کہ اوپر بیان ہوا اور کہا کہ اگر ان میں سے ایک نے بھی بدکاری کر لی تو ان پر عذاب رب آ جائے گا۔ ان عورتوں میں سے ایک بہت ہی حسین عورت جو کنعانیہ تھی اور جس کا نام کسبی تھا جو صور نامی ایک رئیس کی بیٹی تھی، جب وہ بنی اسرائیل کے ایک بہت بڑے سردار زمری بن شلوم کے پاس سے گزری جو شمعون بن یعقوب کی نسل میں سے تھا، وہ اس پر فریفتہ ہو گیا۔ دلیری کے ساتھ اس کا ہاتھ تھامے ہوئے موسیٰ علیہ السلام کے پاس گیا اور کہنے لگا: آپ تو شاید کہہ دیں گے کہ یہ مجھ پر حرام ہے؟ آپ نے کہا: بیشک۔ اس نے کہا: اچھا! میں آپ کی یہ بات تو نہیں مان سکتا، اسے اپنے خیمے میں لے گیا اور اس سے منہ کالا کرنے لگا۔

وہیں اللہ تعالیٰ نے ان پر طاعون بھیج دیا۔ فنحاض بن عیزار بن ہارون اس وقت لشکر گاہ سے کہیں باہر گئے ہوئے تھے، جب آئے تو تمام حقیقت سنی تو بیتاب ہو کر غصے کے ساتھ اس بد کردار کے خیمے میں پہنچے اور اپنے نیزے میں ان دونوں کو پرو لیا اور اپنے ہاتھ میں نیزہ لیے ہوئے انہیں اوپر اٹھائے ہوئے باہر نکلے۔ کہنی کوکھ پر لگائے ہوئے کہنے لگے: یااللہ! ہمیں معاف فرما۔ ہم پر سے یہ وبا دور فرما۔ دیکھ لے، ہم تیرے نافرمانوں کے ساتھ یہ کرتے ہیں۔

ان کی دعا اور اس فعل سے طاعون اٹھ گیا لیکن اتنی دیر میں جب حساب لگایا گیا تو ستر ہزار آدمی اور ایک روایت کی رو سے بیس ہزار مر چکے تھے۔ دن کا وقت تھا اور کنعانیوں کی یہ چھوکریاں سودا بیچنے کے بہانے صرف اس لیے آئی تھیں کہ بنو اسرائیل بدکاری میں پھنس جائیں اور ان پر اللہ کے عذاب آ جائیں۔

بنو اسرائیل میں اب تک یہ دستور چلا آتا ہے کہ وہ اپنے ذبیحہ میں سے گردن اور دست اور سری اور ہر قسم کا سب سے پہلے پھل فنحاص کی اولاد کو دیا کرتے ہیں۔ اسی بلعام بن باعوراء کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔

فرمان ہے کہ اس کی مثال کتے کی سی ہے کہ خالی ہے تو ہانپتا ہے اور دھتکارا جائے تو ہانپتا رہتا ہے۔ یا تو اس مثال سے یہ مطلب ہے کہ بلعام کی زبان نیچے کو لٹک پڑی تھی جو پھر اندر کو نہ ہوئی، کتے کی طرح ہانپتا رہتا تھا اور زبان باہر لٹکائے رہتا تھا۔

یہ بھی معنی ہیں کہ اس کی ضلالت اور اس پر جمے رہنے کی مثال دی کہ اسے ایمان کی دعوت، علم کی دولت غرض کسی چیز نے برائی سے نہ ہٹایا۔ جیسے کتے کی زبان لٹکنے کی حالت برابر قائم رہتی ہے خواہ اسے پاؤں تلے روندو خواہ چھوڑ دو۔

جیسے بعض کفار مکہ کی نسبت فرمان ہے کہ ” انہیں وعظ و پند کہنا، نہ کہنا سب برابر ہے۔ انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے کا۔ “ [2-البقرة:6] ‏‏‏‏

اور جیسے بعض منافقوں کی نسبت فرمان ہے کہ ” ان کے لیے تو استغفار کر یا نہ کر، اللہ انہیں نہیں بخشے گا۔ “ [9-التوبة:80] ‏‏‏‏

یہ بھی مطلب اس مثال کا بیان کیا گیا ہے کہ ان کافروں، منافقوں اور گمراہ لوگوں کے دل بودے اور ہدایت سے خالی ہیں، یہ کبھی مطمئن نہیں ہوتے۔

پھر اللہ عزوجل اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ تو انہیں پند و نصیحت کرتا رہ تاکہ ان میں سے جو عالم ہیں، وہ غور و فکر کر کے اللہ کی راہ پر آ جائیں۔ یہ سوچیں کہ بلعام ملعون کا کیا حال ہوا؟ دینی علم جیسی زبردست دولت کو جس نے دنیا کی سفلی راحت پر کھو دیا۔ آخر نہ یہ ملا نہ وہ۔ دونوں ہاتھ خالی رہ گئے۔

اسی طرح یہ علماء یہود جو اپنی کتابوں میں اللہ کی ہدایتیں پڑھ رہے ہیں، آپ کے اوصاف لکھے پاتے ہیں، انہیں چاہیئے کہ دنیا کی طمع میں پھنس کر اپنے مریدوں کو پھانس کر پھول نہ جائیں ورنہ یہ بھی اسی کی طرح دنیا میں کھو دیئے جائیں گے۔ انہیں چاہیئے کہ اپنی علمیت سے فائدہ اٹھائیں۔ سب سے پہلے تیری اطاعت کی طرف جھکیں اور اوروں پر حق کو ظاہر کریں۔

دیکھ لو کہ کفار کی کیسی بری مثالیں ہیں کہ کتوں کی طرح صرف نگلنے اگلنے اور شہوت زنی میں پڑے ہوئے ہیں۔ پس جو بھی علم و ہدایت کو چھوڑ کر خواہش نفس کے پورا کرنے میں لگ جائے، وہ بھی کتے جیسا ہی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ہمارے لیے بری مثالیں نہیں، اپنی ہبہ کی ہوئی چیز کو پھر لے لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے۔ [صحیح بخاری:2622] ‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے کہ گنہگار لوگ اللہ کا کچھ بگاڑتے نہیں، یہ تو اپنا ہی خسارہ کرتے ہیں۔ طاعت مولیٰ، اتباع ہدیٰ سے ہٹا کر خواہش کی غلامی، دنیا کی چاہت میں پڑ کر اپنے دونوں جہان خراب کرتے ہیں۔