قرآن مجيد

سورة الأعراف
فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُوا الْكِتَابَ يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَذَا الْأَدْنَى وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ لَنَا وَإِنْ يَأْتِهِمْ عَرَضٌ مِثْلُهُ يَأْخُذُوهُ أَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِمْ مِيثَاقُ الْكِتَابِ أَنْ لَا يَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوا مَا فِيهِ وَالدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ[169]
پھر ان کے بعد ان کی جگہ نالائق جانشین آئے، جو کتاب کے وارث بنے، وہ اس حقیر دنیا کا سامان لیتے اور کہتے ہمیں ضرور بخش دیا جائے گا اور اگر ان کے پاس اس جیسا اور سامان آ جاتا تو اسے بھی لے لیتے، کیا ان سے کتاب کا عہد نہیں لیا گیا تھا کہ اللہ پر حق کے سوا کچھ نہ کہیں گے اور انھوں نے جو کچھ اس میں تھا پڑھ بھی لیا تھا اور آخری گھر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو ڈرتے ہیں، تو کیا تم نہیں سمجھتے؟[169]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 168، 169، 170،

رشوت خوری کا انجام ذلت و رسوائی ہے ٭٭

بنی اسرائیل مختلف فرقے اور گروہ کر کے زمین میں پھیلا دیئے گئے۔ جیسے فرمان ہے کہ ” ہم نے بنی اسرائیل سے کہا: تم زمین میں رہو سہو۔ جب آخرت کا وعدہ آئے گا، ہم تمہیں جمع کر کے لائیں گے۔ ان میں کچھ تو نیک لوگ تھے، کچھ بد تھے۔ “ [17-الإسراء:104] ‏‏‏‏

جنات میں بھی یہی حال ہے۔ جیسے سورۃ الجن میں ان کا قول ہے کہ ” ہم میں کچھ تو نیک ہیں اور کچھ اور طرح کے ہیں۔ ہمارے بھی مختلف فرقے ہوتے آئے ہیں۔ “ [72-الجن:11] ‏‏‏‏

پھر فرمان ہے کہ ہم نے انہیں سختی نرمی سے، لالچ اور خوف سے، عافیت اور بلا سے، غرض ہر طرح پرکھ لیا تاکہ وہ اپنے کرتوت سے ہٹ جائیں۔

جب یہ زمانہ بھی گزرا جس میں نیک و بد ہر طرح کے لوگ تھے، ان کے بعد تو ایسے ناخلف اور نالائق آئے جن میں کوئی بھلائی اور خیریت تھی ہی نہیں۔ یہ اب تورات کی تلاوت کرنے والے رہ گئے۔ ممکن ہے اس سے مراد صرف نصرانی ہوں اور ممکن ہے کہ یہ خبر عام نصرانی، غیر نصرانی سب پر مشتمل ہو۔ وہ حق بات کے بدلنے اور مٹانے کی فکر میں لگ گئے، جیب بھر دو، جو چاہو کہلوا لو۔

پس ہوس یہ ہے کہ ہے کیا؟ توبہ کر لیں گے، معاف ہو جائے گا۔ پھر موقعہ آیا پھر دنیا لے کر اللہ کی باتیں بدل دیں۔ گناہ کیا، توبہ کی۔ پھر موقعہ ملتے ہی لپک کر گناہ کر لیا۔

مقصود ان کا دنیا طلبی ہے۔ حلال سے ملے، چاہے حرام سے ملے۔ پھر بھی مغفرت کی تمنا ہے۔ یہ ہیں جو وارث رسول کہلواتے ہیں اور جن سے اللہ نے عہد لیا ہے۔

جیسے دوسری آیت میں ہے کہ ” ان کے بعد ایسے ناخلف آئے جنہوں نے نماز تک ضائع کر دی۔ “ [19-مريم:59] ‏‏‏‏

بنی اسرائیل کا آوے کا آوا بگڑ گیا۔ آج ایک کو قاضی بناتے ہیں، وہ رشوتیں کھانے اور احکام بدلنے لگتا ہے۔ وہ اسے ہٹا کر دوسرے کو قائم مقام کرتے ہیں، اس کا بھی یہی حال ہوتا ہے۔ پوچھتے ہیں: بھئی ایسا کیوں کرتے ہو؟ جواب ملتا ہے: اللہ غفور و رحیم ہے۔

پھر وہ ان لوگوں میں سے کسی کو اس عہدے پر لاتے ہیں جو اگلے قاضیوں ح، اکموں اور ججوں کا شاکی تھا۔ لیکن وہ بھی رشوتیں لینے لگتا ہے اور ناحق فیصلے کرنے لگتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ حالانکہ تم سے مضبوط عہد و پیمان ہم نے لے لیا ہے کہ تم حق کو ظاہر کیا کرو، اسے نہ چھپاؤ لیکن ذلیل دنیا کے لالچ میں آ کر عذاب رب مول لے رہے ہو۔

اسی وعدے کا بیان آیت «وَإِذْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ» [3-آل عمران:187] ‏‏‏‏ میں ہوا ہے یعنی ” اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاری سے عہد لیا تھا کہ وہ کتاب اللہ لوگوں کے سامنے بیان کرتے رہیں گے اور اس کی کوئی بات نہ چھپائیں گے۔ “ یہ بھی اس کے خلاف تھا کہ گناہ کرتے چلے جائیں، توبہ نہ کریں اور بخشش کی امید رکھیں۔

پھر اللہ تعالیٰ انہیں اپنے پاس کے اجر و ثواب کا لالچ دکھاتا ہے کہ اگر تقویٰ کیا، حرام سے بچے، خواہش نفسانی کے پیچھے نہ لگے، رب کی اطاعت کی تو آخرت کا بھلا تمہیں لے گا جو اس فانی دنیا کے ٹھاٹھ سے بہت ہی بہتر ہے۔ کیا تم میں اتنی بھی سمجھ نہیں کہ گراں بہا چیز کو چھوڑ کر ردی چیز کے پیچھے پڑے ہو؟

پھر جناب باری عزوجل ان مومنوں کی تعریف کرتا ہے جو کتاب اللہ پر قائم ہیں اور اس کتاب کی راہنمائی کے مطابق اس پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں، کلام رب پر جم کر عمل کرتے ہیں، احکام الٰہی کو دل سے مانتے ہیں اور بجا لاتے ہیں، اس کے منع کردہ کاموں سے رک گئے ہیں، نماز کو پابندی، دلچسپی، خشوع اور خضوع سے ادا کرتے ہیں۔ حقیقتاً یہی لوگ اصلاح پر ہیں اور ناممکن ہے کہ ان نیک اور پاکباز لوگوں کا بدلہ اللہ ضائع کر دے۔