اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم ’’رَاعِنَا‘‘ (ہماری رعایت کر) مت کہو اور ’’اُنْظُرْنَا‘‘ (ہماری طرف دیکھ) کہو اور سنو۔ اور کافروں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔[104]
مسلمانوں کافروں کی صورت لباس اور زبان میں مشابہت سے بچو! ٭٭
اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو کافروں کی بول چال اور ان کے کاموں کی مشابہت سے روک رہا ہے یہودی بعض الفاظ زبان دبا کر بولتے تھے اور مطلب برا لیتے تھے جب انہیں یہ کہنا ہوتا کہ ہماری سنیے تو کہتے تھے راعنا اور مراد اس سے رعونت اور سرکشی لیتے تھے جیسے اور جگہ بیان ہے آیت «مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّينِ وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَقْوَمَ وَلَـٰكِن لَّعَنَهُمُ اللَّـهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا» [ 4-النساء: 46 ] یعنی یہودیوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو باتوں کو اصلیت سے ہٹا دیتے ہیں اور کہتے ہیں ہم سنتے ہیں لیکن مانتے نہیں اپنی زبانوں کو موڑ توڑ کر اس دین میں طعنہ زنی کے لیے «راعنا» کہتے ہیں اگر یہ کہتے کہ ہم نے سنا اور مانا ہماری بات سنیے اور ہماری طرف توجہ کیجئے تو یہ ان کے لیے بہتر اور مناسب ہوتا لیکن ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے انہیں اپنی رحمت سے دور پھینک دیا ہے اس میں ایمان بہت ہی کم ہے۔ احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ جب یہ لوگ سلام کرتے ہیں تو السام علیکم کہتے ہیں اور سام کے معنی موت کے ہیں تو تم ان کے جواب میں وعلیکم کہا کرو۔ [صحیح بخاری:6257] ہماری دعا ان کے حق میں قبول ہو گی اور ان کی بد دعا ہمارے حق میں مقبول نہیں ہو گی۔ [صحیح مسلم:2166] الغرض قول و فعل میں ان سے مشابہت کرنا منع ہے مسند احمد کی حدیث میں ہے میں قیامت کے قریب تلوار کے ساتھ بھیجا گیا ہوں میری روزی حق تعالیٰ نے میرے نیزے تلے لکھی ہے اس کے لیے ذلت اور پستی ہے مگر جو میرے احکام کے خلاف چلے کرے اور جو شخص کسی [ غیر مسلم ] قوم سے مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہے۔ [مسند احمد:50/2:حسن بالشواھد] ابوداؤد میں بھی یہ پچھلا حصہ مروی ہے۔ [سنن ابوداود:4031، قال الشيخ الألباني:حسن صحیح] اس آیت اور حدیث سے ثابت ہوا کہ کفار کے اقوال وافعال لباس عید اور عبادت میں ان کی مشابہت کرنا جو ہمارے لیے مشروع اور مقرر نہیں سخت منع ہے ایسا کرنے والوں کو شریعت میں عذاب کی دھمکی سخت ڈراوا اور حرمت کی اطلاع دی گئی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب تم قرآن کریم میں آیت «يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا» سنو تو کان لگا دو اور دل سے متوجہ ہو جایا کرو کیونکہ یا تو کسی بھلائی کا حکم ہو گا یا کسی برائی سے ممانعت ہو گی خیثمہ فرماتے ہیں توراۃ میں بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے «يَا أَيّهَا الْمَسَاكِين» فرمایا ہے لیکن امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آیت «يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا» کے معزز خطاب سے یاد فرمایا ہے «راعنا» کے معنی ہماری طرف کان لگانے کے ہیں بروزن «عاطنا» ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:461/2] مجاہد فرماتے ہیں اس کے معنی خلاف کے بھی ہیں۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:318/1] یعنی خلاف نہ کہا کرو اس سے یہ بھی مروی ہے کہ مطلب یہ کہ آپ ہماری سنئے اور ہم آپ کی سنیں۔
انصار نے بھی یہی لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کہنا شروع کر دیا تھا جس سے قرآن پاک نے انہیں روک دیا۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:318/1]
حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں «راعن» کہتے ہیں [ راعن مذاق کی بات کو کہتے ہیں ] یعنی تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں اور اسلام سے مذاق نہ کیا کرو۔ ابو صخررحمہ اللہ کہتے ہیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جانے لگتے تو جنہیں کوئی بات کہنی ہوتی وہ کہتے اپنا کان ادھر کیجئے اللہ تعالیٰ نے اس بےادبی کے کلمہ سے روک دیا اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کرنے کی تعلیم فرمائی۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں رفاعہ بن زید یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرتے ہوئے یہ لفظ کہا کرتا تھا مسلمانوں نے بھی یہ خیال کر کے یہ لفظ ادب کے ہیں یہی لفظ استعمال کرنے شروع کر دیئے جس پر انہیں روک دیا گیا جیسے سورۃ نساء میں ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اس کلمہ کو اللہ نے برا جانا اور اس کے استعمال سے مسلمانوں کو روک دیا جیسے حدیث میں آیا ہے کہ انگور کو کرم اور غلام کو عبد نہ کہو وغیرہ۔ [صحیح مسلم:2248]
اب اللہ تعالیٰ ان بد باطن لوگوں کے حسد و بغض کو بیان فرماتا ہے کہ اے مسلمانو! تمہیں جو اس کامل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ کامل شریعت ملی ہے اس سے یہ تو جل بھن رہے ہیں ان سے کہہ دو کہ یہ تو اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عنایت فرمائے وہ بڑے ہی فضل و کرم والا ہے۔