قرآن مجيد

سورة الأعراف
وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَلِقَاءِ الْآخِرَةِ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ[147]
اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا ان کے اعمال ضائع ہوگئے، وہ اسی کا بدلہ دیے جائیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔[147]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 146، 147،

تکبر کا پھل محرومی ٭٭

تکبر کا نتیجہ ہمیشہ جہالت ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو حق سمجھنے، اسے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ ان کی بےایمانی کی وجہ سے ان کے دل الٹ جاتے ہیں، آنکھ کان بےکار ہو جاتے ہیں۔ ان کی کجی ان کے دلوں کو بھی کج کر دیتی ہے۔

علماء کا مقولہ ہے کہ متکبر اور پوچھنے سے جی چرانے والا کبھی عالم نہیں ہو سکتا۔ جو شخص تھوڑی دیر کے لیے علم کے حاصل کرنے میں اپنے آپ کو دوسرے کے سامنے نہ جھکائے، وہ عمر بھر ذلت و رسوائی میں رہتا ہے۔ متکبر لوگوں کو قرآن کی سمجھ کہاں؟ وہ تو رب کی آیتوں سے بھاگتے رہتے ہیں۔

اس امت کے لوگ ہوں یا دوسری امتوں کے، سب کے ساتھ اللہ کا طریقہ یہی رہا ہے کہ تکبر کی وجہ سے حق کی پیروی نصیب نہیں ہوتی۔

چونکہ یہ لوگ اللہ کے عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں۔ اگرچہ یہ بڑے بڑے معجزے بھی دیکھ لیں، انہیں ایمان نصیب نہیں ہو گا۔ گو نجات کے راستے ان پر کھل جائیں لیکن اس راہ پر چلنا ان کے لیے دشوار ہے۔ ہاں بری راہ سامنے آتے ہی یہ بےطرح اس پر لپکتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے دلوں میں جھٹلانا ہے اور اپنے اعمال کے نتیجوں سے بےخبر ہیں۔

جو لوگ ہماری آیتوں کو جھٹلائیں، آخرت کا یقین نہ رکھیں، اسی عقیدے پر مریں، ان کے اعمال اکارت ہیں۔ ہم کسی پر ظلم نہیں کرتے، بدلہ صرف کئے ہوئے اعمال کا ہی ملتا ہے۔ بھلے کا بھلا اور برے کا برا، جیسا کرو گے، ویسا بھرو گے۔