قرآن مجيد

سورة الأعراف
وَقَالُوا مَهْمَا تَأْتِنَا بِهِ مِنْ آيَةٍ لِتَسْحَرَنَا بِهَا فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ[132]
اور انھوں نے کہا تو ہمارے پاس جو نشانی بھی لے آئے، تاکہ ہم پر اس کے ساتھ جادو کرے تو ہم تیری بات ہرگز ماننے والے نہیں۔[132]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 132، 133، 134، 135،

سیاہ دل لوگ اقرار کے بعد انکار کرتے رہے ٭٭

ان کی سرکشی اور ضد دیکھئیے کہ موسیٰ علیہ السلام سے صاف کہتے ہیں کہ آپ خواہ کتنی ہی دلیلیں پیش کریں، کیسے ہی معجزے بتائیں، ہم ایمان لانے والے نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ سب آپ کے جادو کے کرشمے ہیں۔ ان پر طوفان آیا، بکثرت بارشیں برسیں جس سے پھل اور اناج تباہ ہو گئے اور اسی سے وبا اور طاعون کی بیماری پھیل پڑی۔ اسی لیے بعض مفسرین نے کہا ہے: طوفان سے مراد موت ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:15005] ‏‏‏‏

بعض کہتے ہیں: کوئی زبردست آسمانی آفت آئی تھی جس نے انہیں گھیر لیا تھا۔ ٹڈیوں کی مصیبت ان پر آئی۔ یہ ایک حلال جانور ہے۔

سیدنا عبداللہ بن ابی اونی رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: سات غزوے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئے ہیں۔ ہر ایک میں ہم تو ٹڈیاں کھاتے رہے۔ [صحیح بخاری:5495] ‏‏‏‏

مسند احمد اور ابن ماجہ میں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: دو مردے اور دو خون ہمارے لیے حلال ہیں، مچھلی اور ٹڈی اور کلیجی اور تلی۔ [سنن ابن ماجه:3314،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

ابوداؤد میں ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹڈی کی نسبت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے لشکر بہت سے ہیں جنہیں نہ میں کھاتا ہوں، نہ حرام کہتا ہوں۔ [سنن ابوداود:3813،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جی نہ چاہنے کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا جیسے گوہ آپ نے نہیں کھایا حالانکہ دوسروں کو اس کے کھانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔

حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے ایک مستقل رسالہ اسی میں تصنیف فرمایا ہے۔ اس میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ٹڈی نہیں کھاتے تھے اور نہ گردے کھاتے تھے اور نہ گوہ۔

لیکن انہیں آپ نے حرام نہیں کیا۔ ٹڈی اس وجہ سے کہ وہ عذاب ہے، گردے اس وجہ سے کہ یہ پیشاب کے قریب ہیں اور گوہ اس وجہ سے کہ آپ کو خوف تھا کہ کہیں یہ مسخ شدہ امت نہ ہو۔ [ضعیف الجامع الصغیر:3392] ‏‏‏‏ پھر یہ روایت بھی غریب ہے، صرف یہی ایک سند ہے۔

امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ٹڈی کو بڑی رغبت سے کھایا کرتے، تلاش کر کے منگوایا کرتے۔ چنانچہ کسی نے آپ سے مسئلہ پوچھا کہ ٹڈی کھائی جائے؟ آپ نے فرمایا کہ کاش کہ ایک دو لپیں مل جاتیں تو کیسے مزے سے کھاتے۔ [موطا:30:صحیح] ‏‏‏‏

ابن ماجہ میں ہے کہ امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن تو طباقوں میں لگا کر ٹڈیاں ہدیے اور تحفے کے طور پر بھیجتی تھیں۔ [سنن ابن ماجه:3220، قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

امام بغوی ایک روایت لائے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مریم بنت عمران علیہا السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ایسا گوشت مجھے کھلا جس میں خون نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ٹڈی کھلائی آپ نے ان کے لیے دعا کی کہ اے اللہ! اسے بغیر دودھ پینے کے زندگی دے اور اس کی اولاد کو بغیر آواز نکالے اس کے پیچھے لگا دے۔ [بیہقی فی السنن الکبری:258/9:ضعیف] ‏‏‏‏

ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے: ٹڈیوں کو مارو نہیں، یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا لشکر ہے۔ [طبرانی کبیر:297/22:حسن] ‏‏‏‏

مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ٹڈیاں ان کے دروازوں کی کیلیں کھا جاتی تھیں اور لکڑی چھوڑ دیتی تھیں۔

اوزاعی کہتے ہیں: میں ایک دن جنگل میں تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ٹڈیاں بہت سی آسمان کی طرف ہیں اور ان میں سے ایک ٹڈی پر ایک شخص سوار ہے جو ہتھیار بند ہے جو جس طرف اشارہ کرتا ہے، ساری ٹڈیاں اس طرف کو جھک جاتی ہیں اور وہ زبان سے برابر کہہ رہا ہے کہ دنیا باطل ہے اور اس میں جو ہے وہ بھی باطل ہے۔

شریح قاضی فرماتے ہیں: اس جانور میں سات مختلف جانوروں کی شان ہے: اس کا سر گھوڑے جیسا ہے، گردن بیل جیسی ہے، سینہ شیر جیسا ہے، پر گدھ جیسے ہیں، پیر اونٹ جیسے ہیں، دم سانپ کی طرح کی ہے، پیٹ بچھو جیسا ہے۔

آیت «أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ» [5-المائدة:96] ‏‏‏‏ کی تفسیر میں یہ روایت گزر چکی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج یا عمرے میں جا رہے تھے تو سامنے سے ہمیں ٹڈی دل ملا۔ ہم نے احرام کی حالت میں انہیں لکڑیوں سے مارنا شروع کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے پر آپ نے فرمایا: دریائی شکار میں محرم کو کوئی حرج نہیں۔ [سنن ابن ماجه:3222،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ان ٹڈیوں کے لئے بد دعا کرتے تو فرماتے: اے اللہ! جتنی ان میں سے بڑی ہیں تو انہیں سب کو ہلاک کر ڈال اور جتنی چھوٹی ہیں، سب کو قتل کر ڈال۔ ان کے انڈے خراب کر دے، ان کی نسل کاٹ دے۔ ان کے منہ ہماری روزی سے روک لے۔ ہمیں روزیاں عطا فرما۔ بیشک تو دعاؤں کا سننے والا ہے۔ اس پر سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کے ایک لشکر کے غارت و برباد ہو جانے کی آپ دعا کرتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ یہ تو سمندر کے اندر کی مچھلیوں کا ناک جھاڑنا ہے۔ چنانچہ بعض لوگوں نے اسے مچھلی میں سے اسی طرح نکلتے دیکھا ہے۔ [سنن ابن ماجه:3221،قال الشيخ الألباني:موضوع و باطل] ‏‏‏‏

جب مچھلی سمندر کے کنارے انڈے دے جاتی ہے، وہاں سے جب پانی ہٹ جاتا ہے اور دھوپ پڑنے لگتی ہے تو وہ انڈے سب کے سب پھوٹ جاتے ہیں اور ان میں سے ٹڈیاں نکلتی ہیں جو پرواز کر جاتی ہیں۔

آیت قرآن «إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُم» [6-الأنعام:38] ‏‏‏‏ کی تفسیر میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہم نے بیان کر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار امتیں پیدا کی ہیں جن میں سے چھ سو تری میں ہیں اور جار سو خشکی میں۔ سب سے پہلے ہلاکت ٹڈیوں کی ہو گی۔ [سلسلة احادیث ضعیفہ البانی:4811] ‏‏‏‏

امام ابوبکر بن ابوداؤد ایک حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لکڑی تلوار کے مقابلے پر کچھ نہیں اور درخت کی چھال ٹڈی کے مقابلے میں کچھ نہیں۔ [میزان:1808:ضعیف] ‏‏‏‏ یہ حدیث غریب ہے۔

«قُمَّل» کے بارے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ یہ وہ سیاہ رنگ کے چھوٹے چھوٹے جانور ہیں جو گیہوں میں سے نکلتے ہیں۔

اور قول ہے کہ یہ بھی ایک قسم کی بےپر ٹڈیاں ہیں۔ سعید کہتے ہیں: سیاہ رنگ کے چھوٹے سے کیڑے ہیں۔ اس کا واحد «قملہ» ہے۔

یہ جانور جب اونٹ کو چمٹ جاتے ہیں تو اسے ہلاک کر دیتے ہیں۔ الغرض ایسے ہی موذی جانور بصورت عذاب فرعونیوں کے لیے بھیجے گئے تھے۔ فرعون کی سرکشی اور انکار پر طوفان آیا جس سے انہیں یقین ہو گیا کہ یہ اللہ کا عذاب ہے۔ گڑگڑا کر موسیٰ علیہ السلام سے عرض کرنے لگے کہ اللہ سے دعا کیجئے، یہ موسلا دھار پانی رک جائے تو ہم آپ پر ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ کر دیں گے۔

آپ نے دعا کی، طوفان ہٹ گیا تو یہ اپنے وعدے سے پھر گئے۔ پھر اللہ کی شان ہے کہ کھیتیاں اور باغات اس قدر پھلے کہ اس سے پہلے کبھی ایسے نہیں پھلے تھے۔ جب تیار ہو گئے تو ٹڈیوں کا عذاب آیا، اسے دیکھ کر پھر گھبرائے اور موسیٰ علیہ السلام سے عرض کرنے لگے کہ اللہ سے دعا کیجئے کہ یہ عذاب ہٹا لے، اب ہم پختہ وعدہ کرتے ہیں۔

چنانچہ آپ کی دعا سے یہ عذاب بھی ہٹ گیا لیکن انہوں نے پھر وعدہ شکنی کی۔ فصلیں کاٹ لائے، کھلیان اٹھا لیے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا عذاب پھر اور شکل میں آیا۔ تمام اناج وغیرہ میں کیڑا لگ گیا، اس قدر بکثرت یہ جانور پھیل گئے کہ دس پیمانے لے کر کوئی شخص پسوانے نکلتا تو پسوانے تک یہ جانور سات پیمانے کھا لیتے۔

گھبرا کر موسیٰ علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوئے، پھر وعدے کئے۔ آپ نے پھر دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس آفت کو بھی ہٹا لیا۔ لیکن انہوں نے پھر بےایمانی کی۔ نہ بنی اسرائیل کو رہا کیا، نہ ایمان قبول کیا۔

اس پر مینڈکوں کا عذاب آیا۔ دربار میں فرعون بیٹھا ہوا ہے تو وہیں مینڈک ظاہر ہو کر ٹرانے لگا۔ سمجھ گئے کہ یہ نئی شکل کا عذاب الٰہی ہے۔ اب یہ پھیلنے اور بڑھنے شروع ہوئے، یہاں تک کہ آدمی بیٹھتا تو اس کی گردن تک آس پاس سے اسے مینڈک گھیر لیتے۔ جہاں بات کرنے کے لئے کوئی منہ کھولتا کہ مینڈک تڑپ کر اس کے منہ میں گھس جاتا۔

پھر تنگ آ کر موسیٰ علیہ السلام سے اس عذاب کے ہٹنے کی درخواست کی اور اقرار کیا کہ ہم خود ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی آزاد کر دیں گے۔ چنانچہ آپ نے دعا کی، اللہ تعالیٰ نے اس مصیبت کو بھی دفع کر دیا لیکن پھر مکر گئے۔

چنانچہ ان پر خون کا عذاب آیا۔ تمام برتنوں میں خون، کھانے پینے کی چیزوں میں خون، کنویں میں سے پانی نکالیں تو خون، تالاب سے پانی لائیں تو خون۔ پھر تڑپ اٹھے، فرعون نے کہا: یہ بھی جادو ہے۔

لیکن جب تنگ آ گئے تو آخر موسیٰ علیہ السلام سے مع وعدہ درخواست کی کہ ہم تو پانی سے ترس گئے۔ چنانچہ آپ نے قول و قرار لے کر پھر دعا کی اور الل تعالیٰ نے اس عذاب کو بھی ہٹا لیا لیکن یہ پھر منکر ہو گئے۔

فرعون جب میدان سے ناکام واپس لوٹا تھا، اس نے ٹھان لی تھی کہ خواہ کچھ بھی ہو، میں ایمان نہ لاؤں گا۔ چنانچہ طوفان کی وجہ سے بھوکوں مرنے لگے پھر ٹڈیوں کا عذاب آیا تو درخت تو کیا گھر کی چوکھٹیں اور دروازوں تک وہ کھا گئیں، مکانات گرنے لگے۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے ایک پتھر پر لکڑی ماری جس میں سے بےشمار چچڑیاں نکل پڑیں اور پھیل گئیں۔ کھانا، پینا، سونا، بیٹھنا سب بند ہو گیا۔

پھر مینڈکوں کا عذاب آیا جہاں دیکھو، مینڈک نظر آنے لگے۔ پھر خون کا عذاب آیا۔ نہریں، تالاب، کنویں، مٹکے، گھڑے وغیرہ غرض بجائے پانی کے خون ہی خون سب چیزیں ہو گئیں۔

عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں: مینڈک کو نہ مارو۔ یہ جب بصورت عذاب فرعونیوں کے پاس آئے تو ایک نے اللہ کی رضا جوئی کے لیے تنور میں چھلانگ ماری۔ اللہ نے اس کے بدلے انہیں پانی کی ٹھنڈک عطا فرمائی اور ان کی آواز کو اپنی تسبیح بنایا۔

یہ بھی مروی ہے کہ خون سے مراد نکسیر پھوٹنا ہے۔ الغرض ہر عذاب کو دیکھ کر اقرار کرتے لیکن جب موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے وہ ہٹ جاتا تو پھر انکار کر جاتے۔