قرآن مجيد

سورة الأعراف
وَلَقَدْ جِئْنَاهُمْ بِكِتَابٍ فَصَّلْنَاهُ عَلَى عِلْمٍ هُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ[52]
اور بلاشبہ یقینا ہم ان کے پاس ایسی کتاب لائے ہیں جسے ہم نے علم کی بنا پر خوب کھول کر بیان کیا ہے، ان لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت بنا کر جو ایمان رکھتے ہیں۔[52]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 52، 53،

آخری حقیقت جنت اور دوزخ کا مشاہدہ ٭٭

اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے کل عذر ختم کر دیئے تھے۔ اپنے رسولوں کی معرفت، اپنی کتاب بھیجی جو مفصل اور واضح تھی۔

جیسے فرمان ہے «الرٰ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ» [11-هود:1] ‏‏‏‏ ” اس قرآن کی آیتیں مضبوط اور تفصیل وار ہیں۔ “

اس کی جو تفصیل ہے، وہ بھی علم پر ہے۔ جیسے فرمان ہے «أَنزَلَهُ بِعِلْمِهِ» [4-النساء:166] ‏‏‏‏ ” اسے اپنے علم کے ساتھ اتارا ہے۔ “

امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ آیت اسی آیت پر جاتی ہے، جس میں فرمان ہے «كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِيْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنْذِرَ بِهٖ وَذِكْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ» [7-الأعراف:2] ‏‏‏‏ ” یہ کتاب تیری طرف نازل فرمائی گئی ہے۔ پس اس سے تیرے سینے میں کوئی حرج نہ ہونا چاہیئے۔ “

یہاں فرمایا «وَلَقَدْ جِئْنَاهُم بِكِتَابٍ فَصَّلْنَاهُ عَلَىٰ عِلْمٍ هُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ» لیکن یہ محل نظر ہے اس لیے کہ فاصلہ بہت ہے اور یہ قول بے دلیل ہے۔ درحقیقت جب ان کے اس خسارے کا ذکر ہوا جو انہیں آخرت میں ہو گا تو بیان فرمایا کہ دنیا میں ہی ہم نے تو اپنا پیغام پہنچا دیا تھا۔ رسول بھی، کتاب بھی۔

جیسے ارشاد ہے کہ جب تک ہم رسول نہ بھیج دیں، عذاب نہیں کرتے۔ اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا: انہیں تو اب جنت دوزخ کے اپنے سامنے آنے کا انتظار ہے۔

یا یہ مطلب کہ اس کی حقیقت یکے بعد دیگرے روشن ہوتی رہے گی۔ یہاں تک کہ آخری حقیقت یعنی جنت دوزخ ہی سامنے آ جائیں گی اور ہر ایک اپنے لائق مقام میں پہنچ جائے گا۔ قیامت والے دن یہ واقعات رونما ہو جائیں گے۔ اب جو سن رہے ہیں، اس وقت دیکھ لیں گے۔ اس وقت اسے فراموش کر کے بیٹھ رہنے والے عمل سے کورے لوگ مان لیں گے کہ بیشک اللہ کے انبیاء علیہم السلام سچے تھے، رب کی کتابیں برحق تھیں۔ کاش اب کوئی ہمارا سفارشی کھڑا ہو اور ہمیں اس ہلاکت سے نجات دلائے یا ایسا ہو کہ ہم پھر سے دنیا کی طرف لوٹا دیئے جائیں تو جو کام کئے تھے اب ان کے خلاف کریں۔

جیسے فرمان ہے «وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلَي النَّارِ فَقَالُوْا يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ بَلْ بَدَا لَهُم مَّا كَانُوا يُخْفُونَ مِن قَبْلُ وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ» [6-الأنعام:27] ‏‏‏‏ ” کاش کہ ہم پھر دنیا میں لوٹائے جاتے، اپنے رب کی آیتوں کو نہ جھٹلاتے اور مومن بن جاتے۔ اس سے پہلے جو وہ چھپا رہے تھے، اب ظاہر ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ دوبارہ دنیا میں بھیجے بھی جائیں تو جس چیز سے روکے جائیں گے، وہی دوبارہ کریں گے اور جھوٹے ثابت ہوں۔ “

انہوں نے آپ ہی اپنا برا کیا۔ اللہ کے سوا اوروں سے امیدیں رکھتے رہے۔ آج سب باطل ہو گئیں۔ نہ کوئی ان کا سفارشی، نہ حمایتی۔