نمبر | لفظ | آیت | ترجمہ |
1 | وَظَنَّ |
إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنْزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ حَتَّى إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَا أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا كَأَنْ لَمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ [10-يونس:24]
[ترجمہ محمد جوناگڑھی]
پس دنیاوی زندگی کی حالت تو ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے زمین کی نباتات، جن کو آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں، خوب گنجان ہوکر نکلی۔ یہاں تک کہ جب وه زمین اپنی رونق کا پورا حصہ لے چکی اور اس کی خوب زیبائش ہوگئی اور اس کے مالکوں نے سمجھ لیا کہ اب ہم اس پر بالکل قابض ہوچکے تو دن میں یا رات میں اس پر ہماری طرف سے کوئی حکم (عذاب) آپڑا سو ہم نے اس کو ایسا صاف کردیا کہ گویا کل وه موجود ہی نہ تھی۔ ہم اسی طرح آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے جو سوچتے ہیں
[ترجمہ فتح محمد جالندھری]
دنیا کی زندگی کی مثال مینھہ کی سی ہے کہ ہم نے اس کو آسمان سے برسایا۔ پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں مل کر نکلا یہاں تک کہ زمین سبزے سے خوشنما اور آراستہ ہوگئی اور زمین والوں نے خیال کیا کہ وہ اس پر پوری دسترس رکھتے ہیں ناگہاں رات کو یا دن کو ہمارا حکم (عذاب) آپہنچا تو ہم نے اس کو کاٹ (کر ایسا کر) ڈالا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔ جو لوگ غور کرنے والے ہیں۔ ان کے لیے ہم (اپنی قدرت کی) نشانیاں اسی طرح کھول کھول کر بیان کرتے ہیں
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد]
دنیا کی زندگی کی مثال تو بس اس پانی کی سی ہے جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے ساتھ زمین سے اگنے والی چیزیں خوب مل جل گئیں، جس سے انسان اور چوپائے کھاتے ہیں، یہاںتک کہ جب زمین نے اپنی آرائش حاصل کرلی اور خوب مزین ہوگئی اور اس کے رہنے والوں نے یقین کر لیا کہ وہ اس پر قادر ہیں تو رات یا دن کو اس پر ہمارا حکم آگیا تو ہم نے اسے کٹی ہوئی کر دیا، جیسے وہ کل تھی ہی نہیں۔ اسی طرح ہم ان لوگوں کے لیے آیات کھول کر بیان کرتے ہیں جو خوب سوچتے ہیں۔ |
|
2 | وَظَنَّ |
قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَى نِعَاجِهِ وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَا هُمْ وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ [38-ص:24]
[ترجمہ محمد جوناگڑھی]
آپ نے فرمایا! اس کا اپنی دنبیوں کے ساتھ تیری ایک دنبی ملا لینے کا سوال بیشک تیرے اوپر ایک ﻇلم ہے اور اکثر حصہ دار اور شریک (ایسے ہی ہوتے ہیں کہ) ایک دوسرے پر ﻇلم کرتے ہیں، سوائے ان کے جو ایمان ﻻئے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں اور (حضرت) داؤد (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے، پھر تو اپنے رب سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی کرتے ہوئے گر پڑے اور (پوری طرح) رجوع کیا
[ترجمہ فتح محمد جالندھری]
انہوں نے کہا کہ یہ جو تیری دنبی مانگتا ہے کہ اپنی دنبیوں میں ملالے بےشک تجھ پر ظلم کرتا ہے۔ اور اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی ہی کیا کرتے ہیں۔ ہاں جو ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے اور ایسے لوگ بہت کم ہیں۔ اور داؤد نے خیال کیا کہ (اس واقعے سے) ہم نے ان کو آزمایا ہے تو انہوں نے اپنے پروردگار سے مغفرت مانگی اور جھک کر گڑ پڑے اور (خدا کی طرف) رجوع کیا
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد]
اس نے کہا بلاشبہ یقینا اس نے تیری دنبی کو اپنی دنبیو ںکے ساتھ ملانے کے مطالبے کے ساتھ تجھ پر ظلم کیا ہے اور بے شک بہت سے شریک یقینا ان کا بعض بعض پر زیادتی کرتا ہے، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوںنے نیک اعمال کیے اور یہ لوگ بہت ہی کم ہیں۔ اور داؤد نے یقین کر لیا کہ بے شک ہم نے اس کی آزمائش ہی کی ہے تو اس نے اپنے رب سے بخشش مانگی اور رکوع کرتا ہوا نیچے گر گیا اور اس نے رجوع کیا۔ |
|
3 | وَظَنَّ |
وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ [75-القيامة:28]
[ترجمہ محمد جوناگڑھی]
اور جان لیا اس نے کہ یہ وقت جدائی ہے
[ترجمہ فتح محمد جالندھری]
اور اس (جان بلب) نے سمجھا کہ اب سب سے جدائی ہے
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد]
اوروہ یقین کرلے گا کہ یہ جدائی ہے۔ |