”آنا“ کے لیے ”جَاء“ ، ”(جئ)“ ، ”اَتيٰ“ ، ”هَيْتَ“ ، ”هَلُمَّ“ اور ”تعال“ ، ”(علو)“ کے الفاظ آئے ہیں۔
جَاء
آنا کے لیے جَاءَ کا لفظ عام ہے۔ تاہم اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ آنے کا عمل فی الواقعہ ظہور میں آچکا ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَجَاءُوا أَبَاهُمْ عِشَاءً يَبْكُونَ
”اور وہ ( یوسف علیہ السلام کے بھائی) رات کو روتے روتے اپنے باپ کے پاس آئے۔“
[12-يوسف:16]
اَتيٰ
کسی دوسرے کام کے نتیجہ میں آنے کو یا بسہولت آنے کو کہتے ہیں جیسے دودھ بلونے سے اوپر مکھن آ جاتا ہے تو اس مکھن کو اَتُوَةٌ کہتے ہیں اور اٰتیِ سیلاب کو کہتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
أَتَى أَمْرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ
”خدا کا حکم ( یعنی عذاب گویا) آ ہی پہنچا تو (کافرو) اس کے لیے جلدی مت کرو۔“
[16-النحل:1]
هَيْتَ
یہ لفظ در اصل اَتیٰ کے صیغہ امر حاضر کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور اس کے صیغے ضمائر منفصل سے تبدیل ہوتے ہیں۔ مثلاً ھَیْتَ لَکَ ھَیْتَ لَکُمَا، ھَیْتَ لَکُمْ۔ وَتِس عَلیٰ ھٰذَا۔ابن فارس کے نزدیک ھَیْتَ اصل میں "چیخنے" پر دلالت کرتا ہے(كَلِمَةٌ تُدَلُ عَلَي الصَّيْحَةِ) بعض نے اس کے معنی یہاں آنے، ادھر آنے اور جلدی آنے کے بھی لکھے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ
”وہ عورت( زلیخا) دروازے بند کر کہنے لگی ( یوسف) جلدی آؤ۔“
[12-يوسف:23]
هَلُمَّ
اسماء الافعال سے ہے۔ھَلُمَّ بمعنی پکار یعنی کسی کو پکار پکار کر بلانا۔ یہ لفظ بہت کم استعمال ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الْمُعَوِّقِينَ مِنْكُمْ وَالْقَائِلِينَ لِإِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ إِلَيْنَا
”خدا تم میں سے ان لوگوں کو بھی جانتا ہے جو (لوگوں کو جنگ میں شامل ہونے سے) منع کرتے ہیں اور اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس چلے آؤ۔“
[33-الأحزاب:18]
تعال
بمعنی بلندی اور تعال بمعنی کسی کو بلند جگہ یا بلند مقصد کی طرف بلانا(مف) کسی کو تعظیم سے بلانے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور صرف امر حاضر کے صیغے استعمال ہوتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ
”(اے پیغمبر!) آپ کہہ دیجئے کہ اہل کتاب، جو بات ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں (سلم) ہے۔ اس کی طرف آؤ وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔“
[3-آل عمران:64]