”آباد ہونا، بسنا، رہنا“ کے لیے ”سَكَنَ“ ، ”تَبَوَّاَ“ ، ”(بوء)“ ، ”ثوٰي“ ، ”بَدَا“ ، ”حَضَرَ“ ، ”خَلَدَ“ ، ”عَاشَرَ“ اور ”غَنِيَ“ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
سَكَنَ
سکون کا لفظ اضطرار اور حرکت کی ضد ہے لہذا آباد ہونا کے مفہوم میں جب ”سَكَنَ“ کا استعمال ہوگا تو اس کے معنی ہوں گے کسی دوسرے مقام سے آکر رہائش پذیر ہونا۔
اور جو قرآن میں ہے :
يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ
”اے آدم ! تم اور تمہاری بیوی جنت میں آباد ہو جاؤ۔“
[2-البقرة:35]
تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کی پیدائش ”الجنة“ کے علاوہ کسی دوسرے مقام پر ہوئی تھی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہ اور اسماعیل علیہ السلام کو لا بسایا تو فرمایا:
رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي
”اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی اولاد لا بسائی ہے۔“
تَبَوَّاَ
”تبوء“ کا مادہ ”(بوء)“ ہے۔ اس کے مفہوم میں دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ رجوع الی الشتی اور برابر سرابر ہونا۔ اور اس لفظ کا استعمال اس وقت ہوتا ہے جب کسی رہائش مقام کی فضا اور ماحول میں رہنے والے کی طبیعت کے موافق اور سازگار ہو یا کوئی شخص جس مقصد کے لیے کسی رہائشی جگہ کا انتخاب کرتا ہے وہ اس کے لیے موافق اور سازگار ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَكَذَلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ
”اور اسی طرح ہم نے یوسف کو ملک (مصر) میں اقتدار بخشا، وہ جہاں چاہتے رہائش اختیار کر لیتے۔“
[12-يوسف:56]
اسی طرح اللہ تعالی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:
إِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ
”اور جب آپ کو اپنے گھر سے روانہ ہو کر ایمان والوں کو لڑائی کے لئے مورچوں پر (موقع بہ موقع) متعین کر رہے تھے۔“
جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جنگ کے موقع و محل کے لحاظ سے ہر ایک کو مخصوص مقامات پر متعین فرماتے تھے۔
ثوٰي
معنی دفن کیا جانا۔ کسی جگہ ٹھہرنا، آباد ہونا۔ ”ثَوَ ي الرَّجُل“ آدمی کا مرنا لغت آضداد اور بمعنی۔ کسی جگہ کو مستقل طور پر اقامت گاہ بنا لینا۔ آباد واجداد سے کسی ایک مقام پر ہی رہائش اختیار کیے رکھنا۔
اللہ تعالی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہیں:
وَمَا كُنْتَ ثَاوِيًا فِي أَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا
”اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو مدین میں رہنے والوں میں سے نہ تھے کہ انہیں ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے۔“
[28-القصص:45]
خَلَدَ
کسی جگہ پر ایک طویل عرصہ تک رہنا جہاں تغیر وفساد واقع نہ ہو ۔
اللہ تعالی اہل جنت کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:
وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
”اور وہاں ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی اور وہ اس جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔“
[2-البقرة:25]
بَدَا
”بَدَا“ ”(يَبْدُوا بَدَاوَة)“ کے معنی کسی گاؤں یا دور افتادہ جگہ کا باشندہ ہونا۔ ”بَدَا“ کے لغوی معنی (ظاہر ہونا) بھی ہے اور اس سے ایسا مقام رہائشی مراد ہوتا ہے جہاں بلند عمارتیں نہ ہونے کی وجہ سے سب کچھ نمایاں طور پر نظر آتا ہے اس سے ”بادية“ بمعنی صحرا ، ”بَادِي“ بمعنی صحرا نشین اور ”بَدَوِي“ بمعنی دیہاتی کے الفاظ مشتق ہیں۔
اور یوسف علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے احسانات کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں :
وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُمْ مِنَ الْبَدْوِ
”اور اس (اللہ) نے مجھ پر بہت سے احسان کیے ہیں جب کہ مجھے جیل خانہ سے نکالا اور آپ سب گھر والوں کو گاؤں سے یہاں سے لایا۔“
[12-يوسف:100]
حَضَرَ
کسی شہر میں مقیم ہونا، شہری رہائش اختیار کرنا اور ”خَضْرٌ“ کی ضد ”بَدْوٌ“ ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ذَلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ
”یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جس کے اہل و عیال مکہ میں نہ رہتے ہوں ۔“
[2-البقرة:196]
عَاشَرَ
اس کا مادہ عشر ہے، جس کے دو بنیادی معنی ہیں۔ ➊ دس کا عدد اور ➋ مخالطت اور مداخلت۔ یعنی آپس میں مل جل کر رہنا اسی سے لفظ ”عشيرة“ مشتق ہے جس کے معنی قبیلہ کے ہیں اور ”عاشر“ کے معنی ایک کنبہ کے ساتھ مل جل کر رہنا۔
قرآن کریم میں ایسے مردوں کو جنہیں اپنی بیویوں پر شکایات ہو حکم دیا گیا ہے کہ :
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ
”اور ان عورتوں کے ساتھ اچھی طرح رہو سہو۔“
[4-النساء:19]
غَنِيَ
”غَنَِي بِالْمَكَانِ“ بمعنی کسی مقام پر طویل مدت تک آرام و اطمینان سے رہنا، گویا وہ دوسری جگہوں سے بےنیاز ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
الَّذِينَ كَذَّبُوا شُعَيْبًا كَأَنْ لَمْ يَغْنَوْا فِيهَا
”جنہوں نے شعیب (علیہ السلام) کی تکذیب کی ایسے برباد ہوئے کہ گویا وہ ان میں کبھی آباد ہی نہ ہوئے تھے۔“
[7-الأعراف:92]