”بےقرار ہونا ، گھبرانا“ کے لیے ”فَرَغَ“ ، ”جَزِعَ“ ، ”فَزِعَ“ ، ”كَرُبَ“ ، ”اِضْطَرَّ“ اور ”اِسْتَفَزَّ“ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
فَرَغَ
بمعنی خالی ہونا اور اس کی ضد شَفَلَ یعنی کسی کام میں معروف ہونا ہے اور قَلْبُ فَارِغٌ ایسی کیفیت ہے جب اس میں کچھ شغل نہ ہو۔ یعنی حوصلہ یا صبر نہ رہے اور بے قرار ہو جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَأَصْبَحَ فُؤَادُ أُمِّ مُوسَى فَارِغًا إِنْ كَادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلَا أَنْ رَبَطْنَا عَلَى قَلْبِهَا
”اور موسی علیہ السلام کی ماں کا دل بے قرار ہو گیا اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ کر دیتے تو قریب تھا کہ وہ اسے ظاہر کر دے ۔“
[28-القصص:10]
جَزِعَ
اس کی ضد صبر ہے یعنی بے صبر ہو جانا۔ اور اس لفظ کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب انسان کسی دکھ یا مصیبت پر صبر کرنے کے بجائے غم و تکدر کا زبان سے اظہار بھی شروع کر دے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِنْ مَحِيصٍ
”برابر ہے ہمارے حق میں ہم بے قراری کریں یا صبر کریں ہم کو نہیں خلاصی (عثمانی)۔“
[14-إبراهيم:21]
فَزِعَ
بمعنی دہشت زدہ ہونا اور امام راغب کے نزدیک یہ جزع ہی کی قسم ہے یعنی جزع کے ساتھ گھبراہٹ بھی شامل ہوجائے تو یہ فزع کی کیفیت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِنْهَا وَهُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ
”جو شخص نیکی لے کر آئے گا تو اس کے لیے بہتر بدلہ تیار ہے اور ایسے لوگ (اس روز) گھبراہٹ سے بے خوف ہوں گے ۔“
[27-النمل:89]
كرُبَ
ایسی بے قراری جس میں غم بھی شامل ہو ، بے چینی ، اضطراب اور گھبراہٹ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَنُوحًا إِذْ نَادَى مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ
”اور نوح کا قصہ بھی یاد کرو جب اس سے بیشتر انہوں نے ہمیں پکارا تو ہم نے ان کی دعا قبول فرمائی اور ان کو اور ان کے ساتھیوں کو بڑی گھبراہٹ سے نجات دی۔“
[21-الأنبياء:76]
ھَلَعَ
صاحب فقہ اللغۃ کے مطابق یہ جزع کی انتہائی کیفیت ہے بے حوصلہ اور بے صبر ہونا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا
”کچھ شک نہیں کہ انسان کم حوصلہ پیدا ہوا ہے جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے۔“
[70-المعارج:19]
اِضْطَرَّ
ضَرَّ اور ضُرَّ بمعنی کسی کو تکلیف دینا ، نقصان پہنچانا اور اضرہ علي الامر معنی کسی کو کسی کام پر مجبور کر دینا اور اضطر معنی کسی کو مجبور کرنا۔حاجتمند بنانا گویا اضطرار ایسی بے قراری ہے جس سے انسان کی کوئی حاجت وابستہ ہو ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ
”پھر جو کوئی بے قرار ہو جائے بشرطیکہ وہ نہ تو خدا کا نافرمان ہوا اور نہ حد سے بڑھنے والا ہو تو اس پر سخت بھوک کی حالت میں کوئی حرام چیز کھا لینے پر کچھ گناہ نہیں ۔“
[2-البقرة:173]
اِسْتَفَزَّ
فَزَّ کے معنی کسی کے ہوش اڑا دینا ، کسی کو گھبراہٹ میں مبتلا کر کے نکال دینا اور اِسْتَفَزَّ بمعنی مضطرب کر دینا ، ہلکا بنا دینا اور ذلیل جاننا کے معنوں میں آتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ
”اور گھبرا لے تو ان کو جن کو تو گھبرا سکے اپنی آواز سے۔ (عثمانی )“
[17-الإسراء:64]