”بیوی“ کے لیے کوئی مخصوص لفظ نہیں ہے۔ اور جتنے الفاظ قرآن کریم کے اس معنی میں آئے ہیں سب مجازاً استعمال ہوئے ہیں۔ اور وہ یہ ہیں: ”زَوْج“ ، ”حَلَائِل“ ، ”اِمْرَاَةٌ“ ، ”صَاحِبَة“ ، ”نِسَاءٌ“ اور ”اَهْل“ ۔
زَوْج
بمعنی جوڑا ، پھر جوڑا میں سے ہر کوئی ایک دوسرے کا زوج ہے میاں بیوی کا زوج ہے اور بیوی میاں کی زوج۔
عورت کے لیے:
وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ
”ارشاد باری تعالیٰ ہے :“
[2-البقرة:35]
اور ہم نے کہا اے آدم ! تم اور تمہاری بیوی (دونوں )جنت میں رہو۔
حَلَائِل
حلائل حلیله کی جمع ہے۔ بمعنی حلال اور منکوحہ عورت یا بیوی اور حلیلة حلیل کی مونث ہے مرد کے لیے بیوی حلیلة ہے اور بیوی کے لیے مرد حلیل ہے حلیل اور حلیلة دونوں کی جمع حلائل ہے۔ حلیل کی مثال قرآن میں نہیں ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ
”اور تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں بھی تم پر حرام ہیں۔“
[4-النساء:23]
اِمْرَاَةٌ
عام عورت کو کہتے ہیں اور یہ لفظ بیوی کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ
”اللہ نے کافروں کے لیے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان فرمائی ہے ۔“
[66-التحريم:10]
نِسَاءٌ
اِمْرَاَةٌ کی جمع کی جمع غیر سالم ہے بمعنی عام عورتیں۔ یہ لفظ بھی بیویوں کے لیے استعمال ہوا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ
”اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔“
[33-الأحزاب:32]
صَاحِبَة
صاحب بمعنی ساتھی اور دوست اور اس سے مونث صاحبۃ ہے جو بیوی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ
”اس دن آدمی اپنے بھائی سے اپنی ماں سے اپنے باپ سے اپنی بیوی سے اور اپنے بیٹے سے دور بھاگے گا ۔“
[80-عبس:36]
اَھْل
اھل الرجل کسی شخص کے ہم نسب لوگ یا وہ جو ایک ہی مسکن میں رہتے ہوں۔ پھر اس لفظ کا استعمال آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر بھی ہوتا ہے۔ اور کبھی اهل الرجل سے مراد بیوی ہوتی ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا
”(زلیخا ) نے اپنے خاوند سے کہا بھلا جو شخص تمہاری بیوی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اس کی کیا سزا ہو؟“
[12-يوسف:25]