”بیمار“ کے لیے ”مَرِيْض“ ، ”سَقِيْم“ اور ”حَرَضَ“ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ۔
سَقِیْم
بیماری ، روگ اور غیر درست کلام کو بھی کہتے ہیں۔ سقم کا لفظ جسمانی عوارض سے مخصوص ہے اور صاحب فقہ اللغۃ کے نزدیک بیماری کا پہلا درجہ علالت ہے۔ جبکہ مریض کی طبیعت معمولی خراب ہو تو اسے علیل کہتے ہیں مزید بگڑنے پر اسے سقیم کہیں گے اور جب زیادہ بیمار ہو جائے تو مریض ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ
”پھر ابراہیم علیہ السلام نے ستاروں کی طرف ایک نظر کی اور کہا کہ میں تو بیمار ہوں۔“
[37-الصافات:89]
مَرِیْض
بیماری کے لحاظ سے سَقِیْمٌ سے اگلا درجہ ہے۔ اور مرض الموت ایسی بیماری کو کہتے ہیں جو جان لیوا ثابت ہو اور مرض کا لفظ جسمانی اور قلبی عوراض دونوں کے لیے آیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا
”ان کے دلوں میں (کفر کا ) مرض تھا۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کر دیا۔“
[2-البقرة:10]
اور قلبی امراض سے مراد اخلاق رذیلہ مثلا : بزدلی، بخل ، نفاق ، کفر وغیرہ ہیں ۔
حَرَضَ
بمعنی بڑی بیماری میں مبتلا ہوکر لاغر و ناتوان ہونا اور اَحْرَضَهٗ الْمَرض اوا الحزن بمعنی اس کو بیماری یا غم نے گھلا دیا اور حرض معنی سخت لاغر ہو کر موت کے قریب پہنچ جانا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قَالُوا تَاللَّهِ تَفْتَأُ تَذْكُرُ يُوسُفَ حَتَّى تَكُونَ حَرَضًا أَوْ تَكُونَ مِنَ الْهَالِكِينَ
”بیٹے کہنے لگے اللہ اگر آپ یوسف علیہ السلام کو اسی طرح ہی یاد کرتے رہیں گے تو یا تو سخت بیمار پڑ جائیں گے یا جان ہی دے دیں گے۔“
[12-يوسف:85]