فِتْنَة
یہ کہ انسان جھوٹ سے کام لے کر اس الزام یا گناہ ہی سے انکار کردے۔ اس قسم کے لیے قرآن نے فِتْنَة کا لفظ استعمال کیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ
”تو ان سے کچھ عذر نہ بن پڑے گا بجز اس کے کہ وہ یہ کہہ دیں ، خدا کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم شریک نہیں بناتے تھے۔“
[6-الأنعام:23]
عَذَرَ
”العُذْر“ بمعنی کسی الزام کو دور کرنے کے لیے کوئی وجہ پیش کرنا ہے۔ امام راغب کے الفاظ میں ایسی کوشش جس سے انسان اپنے گناہوں کو مٹا دینا چاہیے اور ”عَذَرَ“ کے معنی عذر قبول کرنا۔ ”عَذَّرَ“ کے معنی جھوٹا بہانہ یا کوئی جھوٹ موٹ وجہ بیان کرنا اور ”اِعْتَذَرَ“ بمعنی عذر پیش کرنا ہے۔ اب اس ”عذر“ کی بھی تین قسمیں ہیں پہلی قسم ”فِتْنَة“ ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَجَاءَ الْمُعَذِّرُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَهُمْ
”اور صحرا نشینوں سے کچھ لوگ عذر بناتے ہوئے تمہارے پاس آئے کہ انہیں جہاد پر نہ جانے کی اجازت دی جائے۔“
[9-التوبة:90]