”بوجھ“ کے لیے ”ثَقَل“ ، ”حَمَل“ ، ”حِمْل“ ، ”وَقَر“ ، ”وِقْر“ ، ”وِزْر“ ، ”اِضْر“ ، ”كَلَّ“ اور ”وزن“ اور ”موازين“ کے الفاظ آئے ہیں۔
ثَقَل
مسافر کا سامان ، بوجھ ، وزن وغیرہ۔ اور یہ عموماً مادی اور حسی بوجھ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور ”ثَقِيْل“ کی ضد ”خفيف“ ہے۔ بمعنی وزن میں ہلکا ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا
”تم سبکسار ہو کر یا گرانبار ہو کر گھروں سے نکل آؤ۔“
[9-التوبة:41]
اور ثقل کی جمع اَثْقَال آتی ہے ۔
حَمَل ، حِمْل
”حَمَلَ“ بوجھ اٹھانے اور بوجھ لادنے کو کہتے ہیں ۔ اور ”حَمْل“ ایسے بوجھ کو کہتے ہیں جو کوئی چیز بباطن اپنے اندر اٹھائے ہوتے ہو ۔ جیسے پیٹ میں بچہ ، درخت کا پھل یا بادل میں پانی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ
”جب مرد عورت کے پاس جاتا ہے تو اسے ہلکا سا حمل ہو جاتا ہے ۔ اور وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی ہے۔“
[7-الأعراف:189]
اور حِمْل اس بوجھ کو کہتے ہیں جو حسی طور پر کسی کی پیٹھ پر لاد دیا جائے۔ لیکن صاحب منتہی الادب کے نزدیک حِمْل کے معنی بارسر یا بارپشت ہے۔ یعنی اٹھانے والا جتنا زیادہ سے زیادہ بوجھ اٹھا سکتا ہو وہی اس کے لیے حِمْل ہے ۔ اور یہ تعریف زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ۔
وَقَر ، وِقْر
بوجھ کے لیے ”وقر“ کا استعمال معنوی طور پر ہوتا ہے ۔ کہتے ہیں ”في صدره وقر“ اس کے دل میں کینہ (کا بوجھ) ہے ۔ اسی طرح ”في اذنه وقر“ اس کے کان میں بوجھ ہے یعنی اسے ثقل سماعت یا بہرا پن کا عارضہ ہے اور اونچا سنتا ہے۔ بعض لوگ ”وقر“ کا معنی کانوں کا میل بھی کرتے ہیں مگر پہلا معنی زیادہ ابلغ ہے ۔ اور کانوں کا میل اسے محدود کر دیتا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا
”بے شک ہم ان کے دلوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں کہ سمجھ نہ سکیں اور ان کے کانوں میں ثقل پیدا کر دیتے ہیں ۔“
[17-الإسراء:46]
اور وقر کا لفظ اسی معنوی بوجھ کی اس زیادہ سے زیادہ مقدار کو کہتے ہیں جو اٹھانے والے کی استطاعت کے مطابق ہو ۔
وِزْر
ابن فارس لکھتے ہیں کہ کوئی شخص جب اپنا کپڑا پھیلا کر اس میں اپنا بوجھ رکھ کر اور ٹھاکر چل دیتا ہے تو یہ ”وِزْر“ ہے ۔ اور اسی لیے ”الذنب“ (گناہ) کو وزر (بوجھ ) کہتے ہیں ۔ یعنی اپنے کیے ہوئے عمل کا بوجھ اور ایسے ہی ”وِزْر“ اسلحہ کو بھی کہتے ہیں جمع ”اوزار“ ۔ اور ”اَوْزَرَ اِيْزَارًا“ کے معنی چھپانا ، لے جانا اور پناہ دینا وغیرہ بھی آتے ہیں۔ اوراسی طرح ”وِزْر“ کے معنی کسی پہاڑ میں جائے پناہ کے بھی آئے ہیں۔ اور ”وِزْر“ کا استعمال اکثر گناہوں کے بار گراں کے لیے ہوتا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَهُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَى ظُهُورِهِمْ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ
”اور وہ اپنے اعمال کے بوجھ اپنی پٹھوں پر اٹھائے ہوئے ہوں گے ۔ دیکھو جو بوجھ یہ اٹھا رہے ہیں بہت برا ہے ۔“
[6-الأنعام:31]
اِصْر
”الاصر“ کے معنی (1) گرہ لگانے اور (2) کسی چیز کو زبردستی روک لینے کے ہیں۔ اس لحاظ سے اپنے عہد و پیمان کی پابندی اور شرعی احکام کی تعمیل کی ذمہ داری کا بار ”اِصْر“ ہے اور ابن فارس کے نزدیک ہر عقد ، عہد اور قرابت ”اِصْر“ ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا
”اے پروردگار! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈالیو جیسا تو نے ہے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا ۔“
[2-البقرة:286]
پھر اِصْر کا اطلاق راہ حق کو اختیار کرنے میں ان رکاوٹوں پر بھی ہوتا ہے ۔ جو کسی معاشرہ کے رسم و رواج کی وجہ سے پیش آتی ہیں ۔
كَلَّ
بمعنی محتاج ، عیال ، یتیم ، درماندہ ، عاجز اور بوجھ کے ہیں ۔ اور ”كَلَّ“ سے مراد تربیت کی ذمہ داری یا نان ونفقہ کا بوجھ ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَى مَوْلَاهُ أَيْنَمَا يُوَجِّهْهُ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ
”ان دونوں میں سے ایک گونگا ہے (بے اختیار و ناتواں ) کہ کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا اور اپنے مالک پر بوجھ بنا ہوا ہے۔ وہ جہاں اسے بھیجتا ہے (خیر سے کبھی) بھلائی نہیں لاتا ۔“
[16-النحل:76]
وزن ، موازین
”وَزَنَ“ بمعنی کسی چیز کو تولنا، وزن کرنا ۔ اور ”وَزَنَ“ وہ بوجھ جو ترازو کے کسی پلڑے میں تلنے کے لیے رکھا جائے ۔ اور ”ميزان“ بمعنی ترازو بھی اور مقدار وزن بھی (ج ”مَوَازِيْن“ )۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ
”تو جس کے اعمال کے وزن بھاری نکلیں گے وہ دلپسند عیش میں ہوگا ۔“
[101-القارعة:6]