وَصَدَ
”وَصَدَ“ اس طرح بند کرنے کو کہتے ہیں کہ بند شدہ چیز سے کچھ باہر نہ نکل سکے۔ ابن فارس کے الفاظ ”الوصد خَتْمُ شَيْءٍ اِلٰي شَيْءٍ“ اور ”اَوْصَدْتُ الْقِدْرَ“ کے معنی ہانڈی پر ڈھکنا دینا تاکہ بھاپ نہ نکل سکے۔ اور ”اَوْصَدْتُ الْبَابَ“ دروازہ بند کرنا۔ لیکن اس کا اطلاق اس وقت ہوگا جب کوئی دوسری کھڑکی یا دروازہ یا روشن دان وغیرہ کھلا نہ ہو۔
”بند کرنا ، ہونا“ کے لیے ”غَلَقَ“ ، ”وَصَدَ“ ، ”قَصَرَ“ اور ”قَبَضَ“ کے الفاظ آئے ہیں۔
غَلَقَ
”غَلَقَ“ بمعنی بند کر دینا اور اس کی ضد ”فَكِّ“ بمعنی رہا کرانا یا چھڑانا ہے ۔ اور ”غَلْق“ بمعنی قفل یا تالا کے ہیں اور ”غَلَّقَ الْبَاب“ کے معنی دروازہ کو مضبوطی سے بند کرنا ۔ چٹخنی وغیرہ لگانا یا مقفل کرنا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ
”اور اس عورت (زلیخا ) نے دروازے بند کر لیے اور کہنے لگی یوسف جلدی آؤ۔“
[12-يوسف:23]
وَصَدَ
”وَصَدَ“ اس طرح بند کرنے کو کہتے ہیں کہ بند شدہ چیز سے کچھ باہر نہ نکل سکے۔ ابن فارس کے الفاظ ”الوصد خَتْمُ شَيْءٍ اِلٰي شَيْءٍ“ اور ”اَوْصَدْتُ الْقِدْرَ“ کے معنی ہانڈی پر ڈھکنا دینا تاکہ بھاپ نہ نکل سکے۔ اور ”اَوْصَدْتُ الْبَابَ“ دروازہ بند کرنا۔ لیکن اس کا اطلاق اس وقت ہوگا جب کوئی دوسری کھڑکی یا دروازہ یا روشن دان وغیرہ کھلا نہ ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
عَلَيْهِمْ نَارٌ مُؤْصَدَةٌ
”یہ لوگ آگ میں بند کر دیئے جائیں گے۔“
[90-البلد:20]
قَصَرَ
بنیادی طور پر دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ (1) کسی چیز کا اپنی انتہا اور ہدف تک نہ پہنچنا۔ (2) حبس بمعنی بند ہونا یہاں دوسرا معنی زیر بحث ہے۔ کہتے ہیں ”قَصَرَ فِيْ بَيْتِهٖ“ اپنے گھر میں محبوس یا بند ہو گیا ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ
”حوریں ہیں رکی رہنے والی خیموں میں۔ (عثمانی)“
[55-الرحمن:72]
قَبَضَ
کے معنی کسی چیز کو مٹھی میں بند کرنا اور قبضة مٹھی کو کہتے ہیں لہٰذا قبض ، سکڑنا کم کرنا , تنگ کرنا اور بند کرنا سب معنوں میں مستعمل ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَأْمُرُونَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ
”(منافق ) برے کام کرنے کو کہتے اور نیک کاموں سے منع کرتے ہیں اور خرچ کرنے سے ہاتھ بند کیے رہتے ہیں۔“
[9-التوبة:67]