”بکھرنا (پراگندہ ہونا)“ کے لیے ”اِنْبَثَّ“ ، ”اِنْتَشَرَ“ ، ”اِنْتَثَرَ“ ” (نثر)“ ، ”اِنْفَضَّ“ ، ”اِسْتَطَارَ“ کے الفاظ آئے ہیں ۔
اِنْبَثَّ
بَثَّ کے معنی پراگندہ کرنا اور دور دور تک پھیلا دینا ہے۔ اور اِنْبَثَّ کے معنی کسی چیز کا متفرق ہو کر سب اطراف میں دور تک پھیل جانا ہے۔ اور اس میں پھیلنے والی چیز کے ارادہ کا کچھ دخل نہیں ہوتا ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَكَانَتْ هَبَاءً مُنْبَثًّا
”اور پہاڑ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائیں ۔ پھر غبار ہو کر اڑنے لگیں۔“
[56-الواقعة:6]
اِنْتَشَرَ
نشر کے معنی پھیلانا اور مشہور کرنا۔ اور اِنْتَشَرَ کے معنی کسی جمع یا جلوس وغیرہ سے لوگوں کا اٹھ کر چلے جانا اور اپنی اپنی راہ لینا ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ
”پھر جب نماز ( جمعہ) ہو چکے تو اپنی اپنی راہ لو ۔ اور خدا کا فضل (معاش ) تلاش کرو۔“
[62-الجمعة:10]
اِنْفَضَّ
فَضَّ کے معنی کسی چیز کو اس طرح توڑنا کہ وہ الگ الگ ہو جائے اور انفضاض بمعنی شیشہ وغیرہ کے ٹکڑے ٹوٹ ٹوٹ کر الگ الگ ہوتے جانا۔ رہا ہے ۔ گویا اِنْفَضَّ کے معنی کسی چیز کے سب کے سب اجزاء کا پراگندہ ہونا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا
”اور جب یہ لوگ سودا بکتا یا تماشا ہوتا دیکھتے ہیں تو ادھر بھاگ جاتے ہیں اور تمہیں (کھڑے کا) کھڑا چھوڑ جاتے ہیں۔“
[62-الجمعة:11]
اِنْتَثَرَ
”نَثَرَ“ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی چیز سے جھڑ کر پراگندہ ہو جائے ۔ اور ”اَنْتِثَار“ ناک جھاڑنے کو کہتے ہیں ۔ ابن فارس ”نَثَرَ“ کے معنی کی متفرق چیز کو نیچے ڈال دینا لکھتے ہیں ۔ ان کے اپنے الفاظ میں ”كلمة تَدُلُّ عَلٰى اِلْقَاءِشَيْءٍ مُتَفَرِّقٍ“ اور ”نثر“ غیر منظوم عبارت کو بھی کہتے ہیں ۔ نیز ”اَنْتَثَرَ“ صرف غیر جاندار کے لیے آتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَثَرَتْ
”اور تارے جھڑ جائیں گے۔“
[82-الإنفطار:2]
اِسْتَطَارَ
”طَارَ“ بمعنی کس پردار جانور یا چیز کا ہوا میں اڑنا اور ”طائر“ بمعنی پرندہ ہے (ج طیر) اور ”استطار“ بمعنی کسی چیز کا ہوا میں بلند ہو کر پھیلنا اور بکھر جانا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا
”وہ لوگ نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے جس کی سختی پھیل رہی ہو گی خوف رکھتے ہیں ۔“
[76-الإنسان:7]