”برداشت کرنا“ کے لیے ”حَلُمَ“ ، ”صَبَرَ“ اور ”كَظَمَ“ کے الفاظ آئے ہیں۔
صَبَرَ
اَلصَّبْر کے لغوی معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روکنا (مف) اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے الصّبر کی یوں تعریف فرمائی کہ اَلصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْاُوْلٰي یعنی کسی صدمہ ، مصیبت یا ناگوار حادثہ کے پڑنے پر فورا اپنے نفس کو جزع فزع اور بیقراری سے روکنا اور اسے برداشت کر جانا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ
”اور وہ لوگ جو سختی، دکھ اور جنگ کے وقت صبر کرنے والے ہیں۔“
[37-الصافات:101]
حَلُمَ
بمعنی بردبار ہونا ، حوصلہ والا ہونا ، یہ ایک مستقل صفت ہے جو ہر وقت حلیم انسان کے اندر موجود رہتی ہے۔ یعنی جب وہ کوئی ناگوار بات سنے یا اسے کوئی صدمہ پیش آئے یا کوئی بےعزتی کرے یا کوئی بڑی خوش کن بات سنے تو اس کی طبیعت میں اتارچڑھاؤ پیدا نہ ہو یا اگر ہو تو معمولی قسم کا ہو اور علٰی حالہ برقرار رہے۔ اور یہ بڑی محمود صفت اور ابو ہلال اس کا معنی اِمْھَال بِتَا خِیْرِ الْعِقَابِ الْمُسْتَحَق یعنی کسی مستحقِ سزا کو سزا میں تاخیر کرکے مہلت دینا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ
”ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو ایک صاحب حوصلہ لڑکے کی خوشخبری دی۔“
[2-البقرة:177]
كَظَمَ
كَظَمَ سانس کی نالی کو کہتے ہیں اور كَظَمَ السِّقَاء بمعنی مشک کو پانی سے لبالب بھر کر اس کا منہ بند کر دینا (مف) اور كَظِیْم اور مَکْظوم اس شخص کو کہتے ہیں جو غم یا غصہ سے سانس کی نالی تک بھرا ہوا ہو۔ مگر اس کا اظہار نہ کرے اور اسے دبا جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ
”اور یعقوب کی دونوں آنکھیں غم کی وجہ سے سفید ہوگئیں اور وہ غم سے (لبالب) بھرے ہوئے تھے۔“
[12-يوسف:84]