”آگ کا جلنا، جلانا“ کے لیے قرآن کریم میں ”قَدَحَ“ ، ”اوري“ ، ”(وري)“ ، ”استوقد“ اور ”اوقد“ ، ”قبس“ ، ”سعّر“ ، ”(سعر)“ ، ”سجّر“ ، ”تلظٰي“ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
قدح
قدح بالزبد بمعنی چقماق سے آگ نکالنے کا ارادہ کرنا گویا قَدَعَ کا لفظ صرف آگ نکالنے کی کوشش اور ارادہ تک محدود ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَالْمُورِيَاتِ قَدْحًا
”پھر (ان گھوڑوں کی قسم) جو پتھر پر نعل مار کر آگ نکالتے ہیں۔“
[100-العاديات:2]
اوري
وري بالزبد محاورہ ہے یعنی چقماق سے آگ کا شعلہ نکالنا اور وَرٰي یَرِي کے معنی آگ کا شعلہ برآمد ہونا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ
”بھلا دیکھو جو آگ تم درخت سے نکالتے ہو کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرتے ہیں۔“
[56-الواقعة:71]
اوقد
وقد معنی آگ کا بھڑکنا اٹھنا۔ ابن فارس نے اس کے معنی كلمه بدل على اشتعال النار بیان کیے ہیں۔ اور اَوْقَدَ آگ جلانے کے معنی میں آتا ہے جب کہ اس میں شعلے پیدا ہونے لگیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَأَوْقِدْ لِي يَا هَامَانُ عَلَى الطِّينِ فَاجْعَلْ لِي صَرْحًا
”(فرعون نے کہا) اے ہامان! میرے لیے گارے کو آگ لگا کر اینٹین پکا دو پھر ایک اونچا محل بنا دو۔“
[28-القصص:38]
قبس
بمعنی آگ کی چنگاری جو شعلہ سے لی جائے اور بمعنی آگ کو بصورت شعلہ لینا اور قَبَسَ بمعنی آگ کا وہ شعلہ جو بڑی آگ سے لیا جائے۔اور قَابِس معنی آگ کا طالب اور قَبَسَهُ النَّار بمعنی کسی کے واسطے اگ لانا اور اَقْبَسَ فُلَاناً بمعنی کسی کو آگ دینا ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَعَلِّي آتِيكُمْ مِنْهَا بِقَبَسٍ أَوْ أَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى
”میں نے آگ دیکھی ہے شاید اس میں سے تمہارے پاس انگاری لاؤں یا آگ جلانے والوں سے رستہ معلوم کر سکوں۔“
[20-طه:10]
سعّر
سَعَرَ کا معنی آگ کا جلنا بھڑکنا اور بلند ہونا ہے گویا یہ وَقَدَ سے اگلا درجہ ہے اور سَعَّرَ بمعنی آگ کو خوب بھڑکانا اور سعیر بمعنی بھڑکتی ہوئی آگ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ
”اور جب دوزخ کی آگ بھڑکائی جائے گی۔“
[81-التكوير:12]
سجّر
سَجَّرَ میں کسی چیز کے بھرے ہوئے ہونے اور اس میں مخالفت یا تلاطم کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ سَجَّرَ النَّسُّور کے معنی تنور کو ایندھن سے بھر کر گرم کرنا تاکہ آگ پوری شدت سے بڑھک سکے۔ نیز سَجْر بادل کی رعد کی آواز کو بھی کہتے ہیں۔ قرآن کریم کے الفاظ وَالْبَحْرِالْمَسْجُوْرِ سے مراد ہے کہ سمندر بھرا ہوا بھی ہوا اور جوش تلاطم سے ابل بھی رہا ہو اور سَجُوْر اس ایندھن کو کہتے ہیں جس سے تنور گرم کیا جائے گویا ہر وہ چیز جو آگ میں شدت پیدا کرنے کے لیے تنور میں جھونک دی جائے وہ سجور ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فِي الْحَمِيمِ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَ
”یہ (کافر لوگ) پہلے کھولتے پانی پھر آگ میں جھونک دیے جائیں گے۔“
[40-غافر:72]
تَلَظَّى
لَظٰی میں ایسی آگ بھڑک رہی ہو مگر اس میں شعلہ نہ ہو اور لَظَّی النَّار معنی آگ بھڑکانا اور تلظی معنی آگ بھڑک اٹھنا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَأَنْذَرْتُكُمْ نَارًا تَلَظَّى
”پھر میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کر دیا۔“
[92-الليل:14]