”بدلہ دینا“ کے لیے ”جَزَا“ ، ”ثَوَّبَ“ اور ”اَثَابَ“ اور ”دَانَ“ کے الفاظ آئے ہیں۔
جَزَا
جزاء کے معنی کافی ہونا اور کفایت کرنا۔ اور جزاء وہ بدلہ ہے کہ جو کام کی نسبت سے کسی صورت کم نہ ہو خواہ وہ کام اور اس کا بدلہ اچھا ہو یا برا ۔ اور اس میں عہد و پیمان اور تعین بھی شرط نہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَلْيَبْكُوا كَثِيرًا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
”اور تم کو ویسا ہی بدلہ ملے گا جیسا تم کام کرتے رہے۔“
[9-التوبة:82]
ثَوَّبَ
عموماً اچھے کام کے اچھے بدلے کے لئے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
نِعْمَ الثَّوَابُ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا
”0“
[18-الكهف:31]
عَذَّبَ
عَذُبَ بمعنی سخت پیاس کی وجہ سے کھانا چھوڑ دینا اور عَذْب کے معنی میٹھا اور خوشگوار مشروب یا کھانا اور مَاءٌ عَذْبٌ کے معنی ٹھنڈا اور خوشگوار پانی اور اَعْذَبَ بمعنی میٹھے پانی پر پہنچنا (مف، منجد) لیکن یہ لفظ باب تفعیل میں جاکر اپنے بنیادی معنی چھوڑ دیتا ہے اور عَذَّب بمعنی سخت تکلیف یا سزا دینا یا عذاب دینا ہے۔ ابو ہلال اس کی تعریف اَلْاَلَم الْمُسْتَقِرّ ( یعنی ثابت و برقرار رکھنے والا دکھ) سے کرتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا
”اور جب تک پیغمبر نہ بھیج لیں، عذاب نہیں دیا کرتے ۔“
[17-الإسراء:15]
دَانَ
الدّین کا لفظ سب بڑے وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ مختصرا اس کے چار معنی ہیں۔1) مکمل حاکمیت 2) مکمل عبودیت اور بندگی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ
”0“
[39-الزمر:3]