”بدکاری“ کے لیے ”زِنَا“ ، ”بَغَآء“ ، ”سَافَحَ“ اور ”فَاحِشَة“ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
زِنَا
معروف لفظ ہے یعنی کسی مرد کا غیر عورت سے یا عورت کا اپنے مرد کے علاوہ کسی دوسرے سے بدفعلی کا ارتکاب زنا کہلاتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا
”اور زنا کے پاس بھی نہ جانا کہ وہ بے حیائی اور بری راہ ہے۔“
[17-الإسراء:32]
بَغَآء
بغی کے معنی حد سے تجاوز کرنا۔ نافرمانی کرنا ۔ دراز دستی کرنا ہے اور بَاغَتِ الْاَمَةُ بِغَاءً کے معنی لونڈی کا زنا کرنا ہے۔ اور بَغیِّ کے معنی زنا کار فاحشہ عورت کے ہیں۔ یعنی بغآء کا لفظ یا تو لونڈی کے زنا سے مخصوص ہے یا پھر پیشہ ور بدکار عورت یعنی کنجری کے لیے۔ جو دوسروں میں زانیہ مشہور ہو چکی ہو۔ قرآن ان دونوں معنوں کی تائید کرتا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ
”اور اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرنا ۔“
[24-النور:33]
سَافَحَ
سفح کے معنی خون یا پانی بہانا اور سَافَحَ کے معنی زنا کرنا ہے اور ابن الفارس کے الفاظ میں صَبَّ الْمَاء بِلَا عَقْدِ نِکَاحٍ یعنی نکاح کے عقد کے بغیر زنا کرنا۔ گویا زنا اور سافح میں فرق یہ ہے کہ اس میں تکرار پایا جاتا ہے۔ اور قرآن کریم میں مُحْصِنِیْن کے مقابلے میں مُسَافِحِیْن کا لفظ استعمال کر کے اس کی تائید کردی ہے۔ تو سَافَحَ کے معنی ہماری زبان میں بطور داشتہ رکھنا ہیں اور مُسَافِح بمعنی ایسی عورت اور مرد ہے جن کے آپس میں علانیہ تعلقات استوار ہوں۔ آشنا کا لفظ بھی آج کل اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ
”تو ان کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کر لو۔ اور دستور کے مطابق ان کا مہر بھی ادا کرو بشرطیکہ عفیفہ ہوں نہ ایسی کہ کھلم کھلا بدکاری کریں اور نہ در پردہ دوستی کرنا چاہیں۔“
[4-النساء:25]
فَاحِشَة
فحش کے معنی ہر وہ قول یا فعل جو قباحت اور برائی میں حد سے بڑھا ہوا ہو اور فاحشة سے مراد ایسے اقوال و افعال ہیں جو زنا کے قریب لے جاتے ہیں یعنی بے حیائی کے کام اور باتیں اور ان معنوں میں یہ لفظ قرآن کریم میں بارہا استعمال ہوا ہے۔ اور زنا کی لیے فاحشة مُبَیِّنَةکا لفظ استعمال ہوا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ
”اور اس نیت سے کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ لے لو انہیں گھروں میں مت روکنا مگر یہ کہ وہ کھلے طور پر بدکاری کے مرتکب ہوں۔“
[4-النساء:19]
اور فاحشة کا لفظ ایسے بدکاری کے فعل پر آتا ہے جو ابھی ثبوت کا محتاج ہو۔