”بخل“ کرنا کے لئے ”بَخِلَ“ ، ”اَمْسَكَ“ ، ”اَوْعٰي“ ، ”اَكْدٰي“ ، ”اَقْنٰي“ ، ”ضَنَّ“ ، ”شَحَّ“ ، ”غَلَّ“ کےالفاظ آئے ہیں۔
بَخِلَ
بَخِلَ کے معنی اپنے جمع شدہ مال میں سے بھی ایسی جگہ خرچ نہ کرنا جہاں خرچ کرنا چاہئے۔ بخل دو قسم کا ہوتا ہے (1)کسی دوسرے کے حقوق کی ادائیگی میں یا انفاق فی سبیل اللہ میں بخل کرنا (2)اپنی جائز ضروریات پر بھی خرچ نہ کرنا۔ یہ دونوں قسم کا بخل مذموم فعل ہے اور یہ لفظ عام ہے جو ہر طرح کے بخل پر استعمال ہو سکتا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُهِينًا
”جو خود بھی بخل کریں اور دوسروں کو بھی بخل سکھائیں اور جو (مال) خدا نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے اسے چھپا چھپا کر رکھیں اور ہم نے ایسے ناشکروں کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔“
[4-النساء:37]
اَمْسَکَ
اَمْسَکَ کے معنی جو کچھ پاس ہو اسے ہاتھ سے نکلنے نہ دینا اور تھامے رکھنا یا کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاظت کرنا کے ہیں اور امساک کے معنی بخل اور ممسک بمعنی بخیل بھی استعمال ہوتا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لَأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْإِنْفَاقِ
”کہہ دو کہ اگر میرے رب کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے تو تم خرچ ہو جانے کے خوف سے ان کو روکے رکھتے ۔“
[17-الإسراء:100]
اَوْعٰي
الاِیْعَاءکے معنی کسی چیز (مال وغیرہ) کو تھیلی میں سنبھال کر اوپر سے منہ بند کر دینا صاحب منجد کے نزدیک یہ تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے (1) کسی چیز کو یاد رکھنا (2)جمع کرنا اور (3)بخل کرنا اور ابن الفارس کے نزدیک اس کا بنیادی معنیٰ صرف منہ بند کرنا ہے اور وِعَاء ہر ایسے سامان کو کہتے ہیں جس کا منہ بند کر دیا جائے یامقفل کر دیا جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَجَمَعَ فَأَوْعَى
”ان لوگوں کو (دوزخ )اپنی طرف بلائے گی جنہوں نے (دین حق سے) اعراض کیا اور منہ پھیر لیا اور مال جمع کیا اور بند رکھا۔“
[70-المعارج:18]
اَكْدٰي
كُدْيَةٌ سخت زمین کو کہتے ہیں اور حَفَرَ فَاَكْدٰي کے معنی ہیں وہ گڑھا کھودتے کھودتے سخت زمین تک جا پہنچے اور مال کے خرچ کرنے کی نسبت سے اَکْدٰی کے معنی تھوڑا سا خرچ کر کے ہاتھ روک لینا یا خرچ کرنے کا ارادہ کر کے پھر رک جانا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَأَعْطَى قَلِيلًا وَأَكْدَى
”بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے منہ پھیر لیا اور تھوڑا سا دیا پھر ہاتھ روک لیا۔“
[53-النجم:34]
اَقْنٰي
قَتَرَ کے معنی بہت کم خرچ کرنا اور اقتار اسراف کی ضد ہے یعنی اپنی جائز ضروریات پر بھی ضرورت سے کم خرچ کرنا اور کنجوسی کر جانا صاحب منتہی الارب کے نزدیک اس کے معنی وہ شخص جس نے اپنے اہل و عیال پر نفقہ تنگ کر رکھا ہو ۔
اللہ تعالی اپنے بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا
”اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بیجا اڑاتے ہیں اور نہ کنجوسی کرتے ہیں بلکہ اعتدال کے ساتھ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم۔“
[25-الفرقان:67]
ضَنَّ
ضَنَّ کے معنی کسی پسندیدہ اور مرغوب شے کے دینے میں بخل کرنا اور الضائن وہ چیزیں ہیں جن کی نفاست کی وجہ سے بخل کیا جائے جیسے حکیم اپنے مجرب نسخہ بتانے یا کوئی فنکار اپنا کسب سکھلانے میں بخل کرتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ
”اور وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پوشیدہ باتوں کے ظاہر کرنے میں بخیل نہیں“
[81-التكوير:24]
شَحَّ
شَحَّ کے معنی بخل کرنا، حرص و لالچ کرنا جب بخل اور حرص دونوں باتیں جمع ہو جائے تو اسے شُحَّ کہتے ہیں اور اسی کا دوسرا نام شدّتِ حرص ہے بمعنی ہر وقت مال و دولت سمیٹنے کی فکر میں رہنا اور خرچ کرنے میں بخل کرنا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
”اور جو شخص حرصِ نفس سے بچالیا گیا تو ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہیں۔“
[59-الحشر:9]
اور شَحِیْحٌ کے معنی بخیل اور حریص آدمی اور اس کی جمع شِحَاحٌ اور اَشِحَّةٌ آتی ہے
غَلَّ
غَلَّ کے بنیادی معنی اس طرح کی خیانت ہے کہ اپنے زیر تصرف کوئی چیز جو اپنی ملکیت نہ ہو اٹھا کر چپکے سے اپنے سامان میں رکھ لی جائے جیسے غنیمت کے مشترکہ مال سے کوئی چیز اٹھا کر اپنی ملکیت میں کرلینا اور غُلٌّ بمعنی طوق ، ہتھکڑی یا بیڑی یعنی ہر وہ چیز جس سے کسی کے اعضاء کو جکڑ کر وسط میں باندھ دیا جاتا ہے اور اس کی جمع اغلال ہے اسی نسبت سے کنایہ مغلول الید یعنی کنجوس شخص کو بھی کہ دیتے ہیں جس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں اور وہ خرچ نہیں کرسکتا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ
”اور یہود کہتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ بند ہو گیا انہیں کے ہاتھ بند ہو جاویں (عثمانی)“
[5-المائدة:64]