مَھَدَ
صاحب منجد کے نزدیک جس طرح چھت کو پھیلانے اور ہموار کرنے کے لیے سَطَحَ کا لفظ آتا ہے اسی طرح زمین کو ہموار کرنے کے لیے مَھَدَ استعمال ہوتا ہے لیکن مَھْد ماں کی گود کو بھی کہتے ہیں۔ جس میں تربیت کا پہلو بھی شامل ہے۔اور مَھَدَ الْاَرْض کے معنی یہ ہوں گے کہ زمین کو اس طرح پھیلانا کے اس کے باشندگان کو وسائل رزق بھی مناسب طور پر مہیا ہوں اور قرآن کریم سے اسی بات کی تائید ہوتی ہے۔
”بچھانا“ کے لیے ”دَحٰي“ ” (دحو)“ اور ”طَحٰي“ ” (طحو)“ ، ”سَطَحَ“ ، ”فَرَشَ“ اور ”مَهَدَ“ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
طَحٰي
”دَحٰي ، طَحٰي“ یہ دونوں لفظ دراصل ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں صرف تلفظ کا فرق ہے۔ یعنی مختلف علاقوں کی لغت ہے۔ قرآن کریم میں یہ دونوں الفاظ صرف ایک ایک بار ہی استعمال ہوئے ہیں اور ایک ہی معنی میں آئے ہیں۔ کہتے ہیں: ”دَحَي الْمَطَرُ الْحَصٰي“ بارش کنکریوں کو دور دور تک بہا لے گئی اور ”دَحَي الرَّجُل“ کے معنی اس شخص نے ملک بھر میں یعنی دور دراز تک سفر کیا تو ”دَحٰي“ اور ”طَحٰي“ کے معنی دور دور تک لے جاکر بچھانا یا پھیلانا کے ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَالْأَرْضِ وَمَا طَحَاهَا
”اور آسمان کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے بنایا اور زمین کی اور اس کی جس نے اسے پھیلایا ۔“
[91-الشمس:6]
دَحٰي
”دَحٰي ، طَحٰي“ یہ دونوں لفظ دراصل ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں صرف تلفظ کا فرق ہے۔ یعنی مختلف علاقوں کی لغت ہے۔ قرآن کریم میں یہ دونوں الفاظ صرف ایک ایک بار ہی استعمال ہوئے ہیں اور ایک ہی معنی میں آئے ہیں۔ کہتے ہیں: ”دَحَي الْمَطَرُ الْحَصٰي“ بارش کنکریوں کو دور دور تک بہا لے گئی اور ”دَحَي الرَّجُل“ کے معنی اس شخص نے ملک بھر میں یعنی دور دراز تک سفر کیا تو ”دَحٰي“ اور ”طَحٰي“ کے معنی دور دور تک لے جاکر بچھانا یا پھیلانا کے ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا
”اور اس کے بعد زمین کو پھیلا دیا۔“
[79-النازعات:30]
سَطَحَ
سَطَحَ کے بنیادی معنی (1)پھیلانا اور پھر(2)ہموار کرنا ہیں۔ سَطَحَ الْبَیْتَ گھر کی چھت کو ہموار کرنا اور مَسْطَحْ ہموار کرنے کے اوزار کو کہتے ہیں۔ مکان کے اوپر کے حصہ اور چھت کو سطح کہتے ہیں۔ امام راغب کے لفظ میں اَلسَّطْحُ : اَعْلَی الْبَیْتِ جُعِلَ سَوِیًّا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ
”اور کیا وہ نہیں دیکھتے زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گی یعنی (اس کا اوپر کا حصہ ہموار بنایا گیا۔)“
[88-الغاشية:20]
فَرَشَ
فَرَشَ بمعنی کپڑا وغیرہ بچھانا ، بستر لگانا۔ اور ہر وہ چیز جو بچھائی جائے اسے فرش اور فراش (بمعنی بچھونا) کہتے ہیں فرش کے بنیادی معنی کسی چیز کو پھیلانا اور فراخ کرنا ہے۔ یعنی کسی چیز کو پورے کا پورا پھیلا دینا اور فَرَشَ الدَّار بمعنی فرش لگانا۔ اینٹ اور پتھر بچھانا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً
”جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا۔“
[2-البقرة:22]
مَھَدَ
صاحب منجد کے نزدیک جس طرح چھت کو پھیلانے اور ہموار کرنے کے لیے سَطَحَ کا لفظ آتا ہے اسی طرح زمین کو ہموار کرنے کے لیے مَھَدَ استعمال ہوتا ہے لیکن مَھْد ماں کی گود کو بھی کہتے ہیں۔ جس میں تربیت کا پہلو بھی شامل ہے۔اور مَھَدَ الْاَرْض کے معنی یہ ہوں گے کہ زمین کو اس طرح پھیلانا کے اس کے باشندگان کو وسائل رزق بھی مناسب طور پر مہیا ہوں اور قرآن کریم سے اسی بات کی تائید ہوتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَمَهَّدْتُ لَهُ تَمْهِيدًا
”اور میں نے اس کے لیے ہر طرح کے سامان میں وسعت دی ابھی خواہش رکھنا ہے کہ وہ زیادہ دوں!“
[74-المدثر:14]