”بت“ کے لیے ”صَنَمْ“ ، ”نُصُب“ ، ”اَوْثَان“ ، ”جِبْت“ اور ”طَاغُوْت“ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
صَنَمْ
(ج ”اصنام“ ) چاندی ۔ پیتل یا لکڑی کے خود تراشیدہ بت اور مورتیاں وغیرہ جو قابل انتقال اور خرید و فروخت ہوتے ہیں۔ ”صَنَّاعَةُ الْاَصْنَام“ بت فروشی کے فن اور پیشہ کو کہتے ہیں ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام جن کا باب آزر یہی کاروبار کرتا تھا اپنے رب سے دعا کرتے ہیں :
وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ
”( اور اے پروردگار!) مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے بچائے رکھنا۔“
[14-إبراهيم:35]
نُصُب
”نَصَبَ الشَّيء“ کے معنی کسی کو سیدھے رخ کھڑا کر دینا اور زمین میں گاڑ دینا اور ”نَصِيْبٌ“ وہ پتھر ہے جو بطور نشان راہ گاڑا جاتا ہے۔ اور ”نَصِيْب“ پتھر یا لو ہے وغیرہ کے اس مجسمے کو بھی کہتے ہیں۔ جو کسی جگہ غرض عبادت نصب کر دیا گیا ہو۔ یہ مجسمے عموماً نبیوں ولیوں اور پیروں یا بادشاہوں کے ہوتے ہیں ۔ اور ایسے مقامات جہاں یہ مجسمہ نصب ہوں انہیں ”تهان“ کہا جاتا ہے۔ اور اس کی جمع ”نُصُب“ اور ”اَنْصَاب“ آتی ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ
”اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے اور یہ بھی پانسوں کے تیروں سے قسمت معلوم کرو ۔ (یہ سب کچھ تم پر حرام کیا گیا ہے)۔“
[5-المائدة:3]
اَوْثَان
(ج ”اوثان“ ) اپنی جگہ ثابت و قائم رہنے والے بت۔ یہ بت راستہ تراشیدہ اور نصب کردہ نہیں ہوتے ۔ بلکہ بعض مخصوص مقامات پتھروں درختوں ستاروں یا اور دریاؤں وغیرہ میں خدا کی صفات کا عقیدہ رکھ کر ان کی عبادت شروع کر دی جاتی ہے ۔ ”اَلْوَثَنِيْ“ بت پرست کو ”الوثنية“ بت پرستی کو کہتے ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ
”تو بتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹی بات سے پرہیز کرو۔“
[22-الحج:30]
جِبْت
بمعنی بت و کاہن وفال گری اور ہر وہ چیز جس میں خیر نہ ہو۔ یہ لفظ دراصل اوہام و خرافات کے لیے جمع الفاظ ہے۔ جس میں جادو، ٹونے ٹوٹکے، جنتر منتر، سیاروں کے تاثرات، گنڈے، نقش اور تعویذ وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ
”کیا آپ نے ان لوگوں پر غور نہیں کیا جنہیں کتاب اللہ سے حصہ ملا ہے۔ پھر بھی وہ جبت اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں ۔“
[4-النساء:51]
طَاغُوْت
بمعنی لات، عزی، جادوگر، کاہن ، باطل، بت اور غیر اللہ کی پرستش اور سرکش گویا طاغوت سے مراد وہ تمام باطل اور سرکش نظام یاقوت ہے۔ جو اللہ کے مقابلہ میں اس کے احکام کی اطاعت پر مائل یا مجبور ہوں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ
”کیا آپ نے ان لوگوں پر غور نہیں کیا جنہیں کتاب اللہ سے حصہ ملا ہے۔ پھر بھی وہ جبت اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں ۔“
[4-النساء:51]