”باغ“ کے لیے ”جَنَّة“ ، ”حَدَائِق“ اور ”رَوْضَة“ کے الفاظ آئے ہیں۔
جَنَّة
”جَنَّ“ سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی کسی چیز کو حواس سے پوشیدہ کرنا اور چھپانا ہیں۔ اور ”جَنَّة“ ایسے باغ کو کہتے ہیں جس کی زمین درختوں اور سبزہ کی وجہ سے نظر نہ آئے۔ صاحب منجد کے نزدیک ”جَنَّة“ درختوں سے ہرا بھرا باغ ہے۔ خواہ وہ ارضی ہو یا سماوی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ
”( ان کی مثال) ایک باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو (جب ) اس پر زور کا مینہ پڑھے تو دوگنا پھل لائے ۔“
[2-البقرة:265]
حَدَائِق
”حَدِيْقَة“ کی جمع ہے جو ”حَدَق“ سے مشتق ہے اور ”حَدَق“ کے معنی کسی کو چاروں طرف سے گھیر لینا۔ لہٰذا ”حَدِيْقَة“ ایسے باغ یا باغچہ کو کہتے ہیں جس کے گرد حفاظت کے لیے چار دیواری بنا دی گئی ہو ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَأَنْبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ
”پھر ہم نے اس بارش سے سرسبز باغ آگائے۔“
[27-النمل:60]
رَوْضَة
(ج روضات) ”روض“ کا لفظ وسعت اور فراخی پر ولالت کرتا ہے ۔ اور ”رَوَّضَ الْمَطْرُ الْاَرْضَ“ کے معنی بارش کا زمین کو باغ و بہار بنا دینا ہے اور ”رَوْضَة“ پر بہار کیاری کو بھی کہتے ہیں۔ گویا ”رَوْضَة“ کسی باغ کے اندر وہ حصہ یا مقام ہوتا ہے جو بڑا پر بہار ہو۔ اور ایسی جگہ پر ہی عموماً بالا خانے یا بارہ دری وغیرہ بنائی جاتی ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَهُمْ فِي رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَ
”تو جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ بہشت کے باغ میں آؤ بھگت کیے جائیں گے ۔“
[30-الروم:15]