اِنْتَھٰي
”اَلنَّهْي“ کے معنی روکنا اور انتہی باز آ جانا یا رکنا کے معنی میں آتا ہے اور ”النِّهَاءُ وَالنِّهَاية“ کسی چیز کی غایت اور آخری حد کو کہتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ
”تو ان کفر کے پیشواؤں سے جنگ کرو کیونکہ یہ بے ایمان لوگ ہیں اور ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں عجیب نہیں کہ اپنی حرکات سے باز آ جائیں۔“
[9-التوبة:12]
اِنَّفَكَ
”فَكَّ“ کے معنی کسی بندھن سے آزاد کرانا ہیں۔ ”فَكُ الْاَسِيْر“ بمعنی قیدی کو چھڑانا۔ ”فَكُّ الرِّهْن“ ، گروی چیز کو واگزار کرانا۔ اور ”فَكُّ رَقَبةٍ“ غلام کو چھڑانا۔ اور ”انفاك“ کے معنی خود جدا ہونا ، کھلنا۔ ”اِنْفَاكُ الْعَبْد“ کے معنی غلام کا آزاد ہونا ہے۔ نیز ”اِنْفَكَّ الْعَظْمُ“ کے معنی کمزوری کی وجہ سے شانہ کے اپنے جگہ سے ہٹ جانے کے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ”انفكاك“ میں باز رہنا اس طرح اضطراری طور ہوتا ہے یعنی جس جگہ چمٹے ہوئے تھے اسی جگہ سے اس اضطرار الگ اور پرے ہونا ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَكِّينَ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ
”جو لوگ کافر ہیں یعنی اہل کتاب اور مشرکین وہ (کفر سے) باز رہنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے پاس کھلی دلیل نہ تھی ۔“
[98-البينة:1]
اور یہ کھلی دلیل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور غلبہ اسلام تھا جس نے انہیں کفر و شرک سے باز رہنے پر مجبور کر دیا۔