”بارش“ کے لیے ”مَطَرَ“ ، ”مَآء“ ، ”طَلَّ“ ، ”وَدْق“ ، ”غَيْث“ ، ”مِدْرَار“ ، ”غَدَقَ“ ، ”وَابِل“ ، ”صَيِّب“ کے الفاظ آئے ہیں۔
مَطَرَ
بارش کے لیے عام لفظ ہے۔ بارش فائدہ مند ہو یا نقصان دے۔ پانی سے برسے یا کوئی اور چیز سب کے لئے ”مطر“ کا لفظ استعمال ہو سکتا ہے اور ”اَمْطَرَ“ بمعنی بارش برسانا۔
قرآن میں ہے :
وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَطَرًا فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ
”اور ہم نے ان پر مینہ برسایا۔ سو جو مینہ ان پر برسا، جو ڈرائے گئے تھے، وہ برا تھا۔“
[26-الشعراء:173]
مَآء
لفظی معنی پانی ہے (ج میاہ) مجازاً بارش کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ
”اور آسمان سے مینہ برسا کر تمہارے کھانے کے لئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کئے۔“
[2-البقرة:22]
طَلَّ
بلکل خفیف اور کمزور سی بارش، شبنم اور پھوہار دونوں کے لیے ”طَلَّ“ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَإِنْ لَمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ
”پھر اگر( اس باغ پر)مینہ نہ پڑے تو پھر پھو ہار بھی کافی ہے۔“
[2-البقرة:265]
وَدْق
جو بارش لگاتار ہوتی رہے اسے ”وَدْق“ کہتے ہیں ایسی بارش عموماً آہستہ آہستہ اور بہت دیر تک جاری رہتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ
”پھر ان بادلوں کو تہ بہتہ کر دیتا ہے۔ پھر تم دیکھتے ہو کہ بادل میں سے مینہ نکل رہا ہے۔“
[24-النور:43]
غَیْث
وہ بارش جو ضرورت کے وقت ہو اور ضرورت کے مطابق ہو وہ ”غَيْث“ ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ
”جیسے بارش کہ اس سے کھیتی اگتی اور کسانوں کو بھلی لگتی ہے۔“
[57-الحديد:20]
مِدْرَار
”مِدْرَار الدَّرّ“ دودھ اور دودھ کی فراوانی کو کہتے ہیں اور دودھ بہت زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو کہتے ہیں۔ اس سے ”مِدْرَاراً“ مشتق ہے۔ ”عَيْنٌ مِّدْرَارٌ“ کے معنی بہت آنسو بہانے والی آنکھ اور ”مِدرار“ کے معنی بہت برسنے والی بارش ہے [منجد] یعنی ”مِدرار“ وہ بارش ہے جس میں پانی کی فراوانی ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا
”اور اے قوم! آپ نے پروردگار سے بخشش مانگو پھر اس کے آگے توبہ کرو۔ وہ تم پر آسمان سے موسلادھار مینہ برسائے گا۔“
[11-هود:52]
غَدَقَ
ابن الفارس کے مطابق ”غدق“ وہ بارش ہے جس میں پانی کی بھی فراوانی ہو اور سود مند بھی ہو اور ”غَدَقَةٌ“ بمعنی شیریں چشمہ اور ”غدق المكان“ بمعنی جگہ کا بارش سے تر ہو جانا۔ سرسبز ہو جانا اور ”غَدِق“ بمعنی سرسبز جگہ [منجد] گویا ”غدق“ ایسی بارش کو کہتے ہیں جو سرسبزی کا باعث ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَأَنْ لَوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَاهُمْ مَاءً غَدَقًا
”دیکھو سب کام اللہ ہی کی طرف لوٹتے ہیں۔“
[72-الجن:16]
صَیِّب
جو بادل سخت گرج دار ہو اسے ”صَيِّب“ کہتے ہیں جبکہ صاحب منتہی الاوب اس سے زور دار بارش مراد لیتے ہیں۔ [م۔ ل] صاحب منجد کے نزدیک کوئی سا بارش والا بادل ”صيّب“ ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
أَوْ كَصَيِّبٍ مِنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ
”یا اس بارش کی مانند جس میں اندھیرے بھی ہیں، گرج بھی اور چمک بھی۔“
[2-البقرة:19]
وَابِل
”وَبَلَ“ کے معنی (مویشی وغیرہ کو) لاٹھی سے لگاتار مارنا ۔ [منجد] اس کے معنی میں ”شدة“ اور ”ثقل“ پایا جاتا ہے۔ ابن فارس کہتے ہیں کہ ”وبل“ کسی چیز میں شدت اور کثرت کے معنی دیتا ہے اور ”وابل“ سے مراد شدید قسم کی بارش ہے۔ [م ل] گویا وابل وہ بارش ہے جو پانی کی کثرت اور اپنی شدت اور تیزی کی وجہ سے خس و خشاک تک بہا لے جائے اور یہ بارش کا آخری درجہ ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا
”اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا تو دیکھا کہ ان کی پونجی انہیں واپس موڑ دی گئی ہے۔ اس کی مثال اس چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو اور اس پر زور کا مینہ برس کر اسے صاف کر ڈالے۔“
[2-البقرة:264]