”بار ، دفعہ ، مرتبہ“ کے لیے ”مَرَّةً“ ، ”كَرَّةً“ اور ”تَارَةً“ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں اور یہ سب الفاظ اسم مرّة ہیں۔ بمعنی کسی کام کو ایک بار کرنا۔ جس طرح ”جَلْسَةً“ کے معنی ایک بار بیٹھنا اور ”غَزْوَةً“ کے معنی ایک بات کی لڑائی یا حملہ ہے۔
مَرَّةً
”مَرَّ“ بمعنی کسی مقام کے پاس سے گزرنا اور نیز وقت کا گزرنا۔ اور اس لحاظ سے اس کا معنی ہوگا ، ایک بار گزرنا یا کوئی کام کرنا اس کا تثنیہ ”مَرَّتَان“ یا ”مَرَّتَيْن“ اور جمع ”مرّات“ اور ”مَرَارًا“ بمعنی کئی بار آتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ
”کیا یہ دیکھتے نہیں کہ وہ ہر سال ایک یا دو بار بلا میں پھنسا دیئے جاتے ہیں۔“
[9-التوبة:126]
كَرَّةً
”كَرَّ“ ، ”كَرَارًا“ بمعنی دشمن پر حملہ کرنا، ٹوٹ پڑنا اسی سے لفظ ”كرّار“ مشہور ہے اور ”كرّوفر“ اس جنگی چال کو کہتے ہیں جو عرب میں ایک دور میں مشہور تھی۔ یعنی حملہ کرنا اور یکدم پسپا ہو کر ازسرنو دوبارہ ٹوٹ پڑنا اور ”كَرّ تكرارًا“ بمعنی کسی کام کو پہلے کی طرح بار بار کرنا اور یہی زیر بحث ہے۔ یعنی کسی کام کو بالکل اسی طرح کرنا جیسے پہلے کیا تھا ، ایک بار پھر کرنا اور ابن الفارس کے لفظ میں رجوع الی الشی بعد مرة الاولي معنی دوبارہ پہلے ہی جیسا کام کرنا اور ”كرة“ بمعنی لڑائی میں ایک بار کا حملہ بھی اور کسی کام کو دوبارہ کرنا بھی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ
”پھر ہم نے دوسری بار تم کو اُن پر غلبہ دیا۔“
[17-الإسراء:6]
اس آیت میں كَرَّةً کا لفظ دونوں مفہوم ادا کر رہا ہے اور عَلٰی کا صلہ غلبہ کو ظاہر کر رہا ہے۔
تَارَةً
ایسے بعض اہل لغت ”تور“ کے تحت لائے ہیں اور بعض ”تار“ کے تحت۔ اور اس کا معنی ہے ”اعادة بَعْدَ مَرةٍ“ اور بمعنی ہنگام ویکبار۔ یعنی کبھی کسی وقت ایک بار پھر وہ کام کرنا۔ کہتے ہیں ”فَعَلْتُ تارة هذا وتاة ذاك“ یعنی میں نے کبھی تو یہ کام کیا اور کبھی وہ گویا ”تارة“ ایسے کام کا اعادہ ہے جو کبھی کسی زمانہ میں پہلے کیا تھا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى
”اس زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا اور اسی میں تمہیں لوٹائیں گے اور اسی سے دوسری مرتبہ نکالیں گے ۔“
[20-طه:55]