مُلْك، مَلَكُوْت
”مُلك“ کا لفظ سلطنت سے زیادہ وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ زمین کا کوئی خاص علاقہ جو چند ایک قدرتی حدود سے محدود ہو وہ بھی ملک ہے اور تمام روئے زمین بھی ملک ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ
”کہو اے اللہ ! (تمام ) ملک کے مالک تو جسے چاہے بادشاء بخشتا ہے ۔“
[3-آل عمران:26]
اس آیت میں پہلا ”ملك“ تمام روئے زمین کے معنوں میں اور دوسرا ایک مخصوص رقبہ کے معنوں میں آیا ہے۔
سُلْطَان
کا لفظ تین معنوں میں آتا ہے۔ (1) معنی دلیل جو سند یا دستاویز کی حیثیت رکھتی ہو، اتھارٹی۔ ان معنوں میں یہ لفظ قرآن کریم میں اکثر آیا ہے۔ (2) سلطنت یا بادشاہی اس معنی میں صرف ایک مقام پر آیا ہے ۔ (3) بمعنی بادشاہ ان معنوں میں یہ لفظ قرآن میں نہیں آیا۔ ”سلطان“ کا معنی بادشاہ لغت کے اعتبار سے نہیں بلکہ یہ کنائی کی معنی ہے۔ جب یہ لفظ سلطنت یا بادشاہی کے معنوں میں آئے تو اس سے مراد وہ علاقہ ہے جو کسی شخص یا آوارہ یا سلطان کے زیر نگیں ہو اور اس پر اس کا تسلط ہوگا۔
کافر قیامت کے دن کہے گا :
هَلَكَ عَنِّي سُلْطَانِيَهْ
”آج میرا مال میرے کچھ بھی کام نہ آیا (ہائے ) میری سلطنت بھی میرے پاس نہ رہی ۔“
[69-الحاقة:29]