”بات“ کے لیے ”قَوْل“ ، ”حَدِيْث“ اور ”كَلِمَةٌ“ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
قَوْل
اس کی جمع ”اقوال“ اور جمع الجمع ”اَقَاوِيْل“ ہے۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہر وہ بات جو زبان سے ادا کی جائے وہ ”قول“ ہے خواہ وہ بے معنی ہو یا بامعنی ۔ لیکن قرآن کریم میں یہ لفظ تین صورتوں میں استعمال ہوا ہے۔ (1) منہ سے نکلی ہوئی بات کے لیے۔ (2)ایسی بات جو منہ سے نہ نکلی ہو بلکہ ابھی دل میں ہی ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ
”ایک کہنے والے نے کہا کہ تم (یہاں )کتنی مدت رہے؟“
[18-الكهف:19]
حَدِیْث
”حَدِيْث“ بمعنی کسی چیز کا ظہور میں آنا، کسی امر کا واقعہ ہونا، نئی چیز یا بات کا پیدا ہونا۔ اور اس کی ضد ”عدم“ ہے۔ ابن فارس کے الفاظ میں ایسی شے کا پیدا ہونا جو پہلے نہ تھی اور ”حديث“ سے مراد ہر وہ نئی بات یا نظریہ ہے جس کا تعلق عام لوگوں سے ہو اور پہلے اکثر لوگ اس سے ناآشنا ہوں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا
”تجھے کیا معلوم شاید اللہ پیدا کر دے اس اطلاق کے بعد نئی صورت ۔ [عثماني]“
[64-الطلاق:1]
كَلِمَةٌ
”كَلِمَةٌ“ کا لغوی معنی ”بامعنی بات“ ہے جس کا ادراک قوت سامعہ سے ہو سکے اور اس کا مفہوم سمجھ میں آ سکے۔ ابن فارس کے اپنے الفاظ میں ”نطق يُفْهم“ ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا
”وہ تو ایک بات ہوگی جو کہنے والا کہہ دے گا۔“
[23-المؤمنون:100]
لیکن جب لفظ ”كَلِمَةٌ“ کی نسبت ذات باری تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کے معنی عجائبات قدرت قوانین فطرت اور اللہ تعالیٰ کے تخلیقی کارنامے مراد ہوتے ہیں۔ [تفهيم القرآن]