”آزاد کرنا“ کے لیے ”تحرير“ ، ”طلاق“ اور ”تسريح“ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
تحرير
اس کا اصل حُرّ ہے اور اس کے مادہ میں دو باتیں پائی جاتی ہیں 1) آزاد ہونا 2) عیب و نقص پاک حَرّ کی ضد عبد معنی غلام ہیں اور حَرَّرَ تَحْرِیْراً کے معنی غلام کو آزاد کرنا گویا یہ لفظ صرف غلام کو آزاد کرنے کے لئے مخصوص ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ
”اور جو بھول کر بھی مومنین کو مار ڈالے تو ایک تو ایک مسلمان غلام آزاد کرے اور دوسرے مقتول کے وارثوں کو خون بہا بھی دے!“
[4-النساء:92]
طلاق
طلاق اس کا مادہ طلق میں دو باتیں پائی جاتی ہیں 1) تخلیہ 2) ارسال گویا کسی ذی حیات کو جو اپنے کنٹرول اور نگہداشت میں ہو ، اس سے کنٹرول اٹھا لینا اور اپنے ہاں سے روانہ کر دینا اس کا معنی ہے اور اس لفظ کا استعمال بالعموم اپنی بیوی کو نکاح کے بندھن سے آزاد کرنے اور رخصت کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ تاہم یہ ضروری نہیں کہ دونوں باتیں ایک ساتھ ہی پائی جائیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ
”طلاق دوبارہ ہے۔“
[2-البقرة:229]
تسريح
سرح سے مشتق ہے۔ جس کے معنی ہیں مویشی کا چرنے کے لیے اور اَسْرَح بمعنی معنی اونٹ یا مویشیوں کو چرنے کے لیے بھیجنا بعد میں اس کا اطلاق مویشیوں کو چرا گاہوں میں کھلا چھوڑ دینے پر ہونے لگا ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَكُمْ فِيهَا جَمَالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ
”اور شام کو جب ان مویشیوں کو جنگل سے لاتے ہو اور صبح کو جنگل چرانے لے جاتے ہو تو ان سے تمہاری عزت و شان ہے۔“
[16-النحل:6]