”اکیلا“ کے لیے ”اَحَذ“ ، ”وَحِيْد“ ، ”فَرْد“ اور ”فُرَادٰي“ کے لیے قرآن کریم میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
اَحَذ
بمعنی لاثانی۔ بے نظیر اس لحاظ سے اس لفظ کا اطلاق صرف ذات باری تعالیٰ پر ہوتا ہے۔ غیر باری تعالی کے لیے وَاحِد کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن دو موقعوں پر اَحَد کا لفظ واحد کا مرادف ہو کر آتا ہے۔ اسمائے عدد اور ان کی ترکیب میں جیسے اَحَدَ عَشَرَ. اَحَدَ ھُمَا۔ اَحَدٌ مِنْکُم۔ اَحَدَكُم۔ یَوْمُ الْاَحَد۔ اتوار وغیرہ۔ نفی کی صورت میں صرف ذوی العقول کی لیے آتا ہے جیسے لَیْسَ فِی الدَّارِ اَحَدٌ گھر میں کوئی بھی نہیں ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ
”پھر تم میں سے کوئی بھی ہم کو روکنے والا نہ ہوگا۔“
[69-الحاقة:47]
وَحِیْد
اور واحد کا لفظ عام ہے اور اللہ تعالی اور ماسوا سب کے لیے یکساں مستعمل ہے اور اللہ تعالی کا ایک نام ہے جس کے معنی ایک کے ہیں جیسے ھُوَ الله الْوَاحِدُ الْقَهارُ لیکن جب ہم
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا
”کہو کہ وہ (ذات پاک جس کا نام) اللہ (ہے) ایک ہے۔“
[74-المدثر:11]
فَرْد
بمعنی اکیلا ۔ طاق۔ ایک تلوے کی جوتی۔ کہا جاتا ہے۔ ھَذَا شَیءٌ فَرْدٌ یه منفرد چیز ہے فرد ایسی چیز کو کہتے ہیں جس کے ساتھ دوسری نہ ملائی گئی ہو یہ لفظ وتر( طاق : جفت کی ضد ) سے عام ہے اور واحد سے خاص۔ اس کی جمع افراد ہے جس کے معنی ہیں سب الگ الگ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَى رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ
”اور زکریا (کو یاد کرو) جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ پروردگار ! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب سے بہتر وارث ہے۔“
[21-الأنبياء:89]
فُرَادٰي
اَلْفُرْدة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں تنہا جانے۔ والا کہا جاتا ہے۔ جَاءُوْا فُرَادٰي وہ سب اکیلے اکیلے آئے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَى كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ
”اور جیسا ہم نے تم کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا ایسا ہی آج اکیلے اکیلے ہمارے پاس آئے۔“
[6-الأنعام:94]