شَھِدَ
بمعنی گواہی شہادت۔ اور یہ شہادت دو قسم کی ہوتی ہے ایک عینی شہادت دوسری قلبی شہادت۔ یعنی ایسی حقیقت جس کا انسان کو کلی طور پر یقین ہو اور اس کا قاضی کے سامنے بیان دینا جیسے کلمہ شہادت۔ جو ہر مسلمان گواہی دیتا ہے حالانکہ انہوں نے اللہ کو دیکھا نہیں اور صحابہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ دوسرے مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہِ والسلام اللہ کو بھی نہیں دیکھا پھر جب یہی قلبی شہادت اپنی ذات سے متعلق ہو تو اس کا معنی ”اقرار کرنا“ ہوگا۔
”اقرار کرنا“ کے لیے ”اَقْرَرَ“ ، ”اِعْتَرَفَ“ ، ”(عرف )“ ، شَ ”هِدَ“ کے الفاظ آئے ہیں۔
اَقْرَرَ
اس کا مادہ قرر ہے بمعنی کسی جگہ جم کر ٹھہرنا۔ قرار پکڑنا اور اَقْرَرَ کے معنی کسی بات پر ثابت و قائم ہو جانا اور اقرار عموما کسی معاملہ یا وعدہ سے متعلق ہوتا ہے جو زمانہ مستقبل سے تعلق رکھتا ہے یعنی کسی وعدہ پر ثابت قدم اور قائم رہنا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ
”اللہ نے (انبیاء سے عہد لینے کے بعد) پوچھا کیا تم نے اقرار کیا اور اس اقرار پر میرا ذمہ لیا (یعنی مجھے ظامن ٹھہرایا) انہوں نے کہا ہاں ! ہم نے اقرار کر لیا (خدا نے) فرمایا کہ تم اس عہد و پیمان کے گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔“
[3-آل عمران:81]
اِعْتَرَفَ
عَرَفَ کے معنی کسی چیز کو پہچان لینا اور اَعْتَرَفَ بمعنی اپنے جرم کا اقرار کر لینا اور ذلیل و خوار ہونا گویا مجرم جو اپنے جرم سے بہرحال پہلے ہی واقف اور شناسہ ہوتا ہے۔ جب خود اس کا اقرار کر لے تو یہ اعتراف کہلاتا ہے اور اس جرم کا تعلق زمانہ گزشتہ سے ہوتا ہے جس کا اس نے اقرار کیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَاعْتَرَفُوا بِذَنْبِهِمْ فَسُحْقًا لِأَصْحَابِ السَّعِيرِ
”تو (گناہگار قیامت کو) اپنے گناہوں کا اقرار کر لیں گے سو اہل جہنم کے لیے خدا کی رحمت سے دوری ہے۔“
[67-الملك:11]
شَھِدَ
بمعنی گواہی شہادت۔ اور یہ شہادت دو قسم کی ہوتی ہے ایک عینی شہادت دوسری قلبی شہادت۔ یعنی ایسی حقیقت جس کا انسان کو کلی طور پر یقین ہو اور اس کا قاضی کے سامنے بیان دینا جیسے کلمہ شہادت۔ جو ہر مسلمان گواہی دیتا ہے حالانکہ انہوں نے اللہ کو دیکھا نہیں اور صحابہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ دوسرے مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہِ والسلام اللہ کو بھی نہیں دیکھا پھر جب یہی قلبی شہادت اپنی ذات سے متعلق ہو تو اس کا معنی ”اقرار کرنا“ ہوگا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قَالُوا شَهِدْنَا عَلَى أَنْفُسِنَا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا
”وہ کہیں گے اے پروردگار! ہمیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے اور ان لوگوں کو دنیا کی زندگی نے دھوکا میں ڈال رکھا ہے۔“
[6-الأنعام:130]