”افسوس“ کے لیے ”وَيْلَ“ ، ”لَيْتَ“ ، ”اَسْفٰي“ اور ”آسٰي“ ، ”(اسي)“ کے الفاظ آئے ہیں۔
وَیْلَ
کلمہ وعید ہے۔ جو اپنی اصل کے لحاظ سے بد دعا کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اور وَیْلُ (اسم) بمعنی شر و برائی کا نزول۔ ہلاکت بہت سخت مصیبت اور تَوَایَل بمعنی ایک دوسرے کو بد دعا دینا ویل کا لفظ برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر بولا جاتا ہے۔ اور جب انسان کسی مصیبت یا پریشانی میں گرفتار ہو تو اس کلمہ سے افسوس کا اظہار کرتا ہے۔ اب اس کی مثالیں دیکھیے :
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا
”کہیں گے ۔ اے ہائے! ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے جگا دیا ؟“
[36-يس:52]
لَیْتَ
حرف تمنی مشبہ بہ فعل ہے اور گزشتہ کوتاہی پر اظہار تاسف کے لیے آتا ہے۔ بمعنی اے کاش کہ کاش کہ افسوس اور ایسی آرزو کے لیے آتا ہے جس کا پورا ہونا ممکن نہ ہو۔ جیسے لَیْتَ الشَّبَابُ عَائِداً کاش جوانی لوٹ آتی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَا لَيْتَنِي كُنْتُ تُرَابًا
”اور (قیامت کے دن) کافر کہے گا اے کاش میں مٹی ہو چکا ہوتا۔“
[78-النبأ:40]
اَسْفٰی
افسوس اور غم کے ملے جلے جذبات کو کہتے ہیں غصہ جب کسی کمزور شخص پر آئے تو وہ غیظ وغضب کی شکل اختیار کرتا ہے اور جب اپنے سے طاقتور پر غصہ آئے تو وہ منقبض ہو کر حزن اور افسوس بن جاتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَقَالَ يَا أَسَفَى عَلَى يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ
”اور یعقوب نے کہا ہائے افسوس یوسف (ہائے افسوس) اور غم سے اس کی آنکھیں سفید ہو گئی۔ اور اس کا دل غم سے بھرا ہوا تھا۔“
[12-يوسف:84]
آسٰی
جو موقعہ غفلت یا کوتاہی کی وجہ سے ہاتھ سے نکل جائے اس پر افسوس اور غم کا اظہار کرنا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ
”تاکہ جو کچھ تم سے فوت ہو گیا اس کا غم نہ کھایا کرو اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو۔“
[57-الحديد:23]