”اعتدال“ کے لیے ”قَصْد“ ، ”وَسَط“ اور ”تَقْوِيْم“ کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔
قَصْد
قَصْد اور اِقْتِصَاد کے معنی افراط اور تفریط سے بچتے ہوئے درمیانی راہ کو اختیار کرنے کے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ اِقْتِصَاد کا استعمال عموما خرچ اخراجات سے متعلق ہے جبکہ قَصْد کا لفظ عام ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ
”اپنی چال میں اعتدال کو ملحوظ رکھو۔“
[31-لقمان:19]
وَسَط
ایک ہی چیز کا درمیان یا دو یا دو سے زیادہ چیزوں کی درمیانی چیز گویا کہ یہ لفظ قصد سے زیادہ ابلغ ہے اور وَسَطَ بمعنی ہر ایک معاملہ میں درمیانی اور اعتدال کی راہ اختیار کرنے والا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ
”اور اسی طرح ہم نے تم کو امتِ معتدل بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو۔“
[2-البقرة:143]
تَقْوِیْم
تَقْوِیْم کا تعلق ایک ہی چیز سے ہوتا ہے کہ اس میں افراط و تفریط کے جملہ پہلوؤں کو دور کر دیا جائے اور متوازن ، متناسب اور معتدل بن جائے۔ اس میں کوئی جھول ، ڈھلک کا اور ٹیڑھے نہ رہے۔ قوم الشیء بمعنی کسی چیز کے تعین و تعدیل کرنا اسی سے تقویم البلدان بنایا گیا ہے کیونکہ اس میں شہروں کی طول و عرض کو بیان کیا گیا ہے اور قَوَّمَ دَرْاَہٗ بمعنی ٹیڑھے پن کو سیدھا کرنا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ
”بے شک ہم نے انسان کو بہترین اندازے پر پیدا کیا ہے۔“
[95-التين:4]