”آڑ“ کے لیے ”برزخ“ ، ”حجر“ ، ”حجز“ اور ”حد“ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
برزخ
دو چیزوں کے درمیان کوئی حائل چیز جبکہ ان دونوں چیزوں کے درمیان کافی وسعت ہو تو یہ حائل چیز برزخ ہے جیسے دنیا اور آخرت کے کے درمیان یا مرنے سے لے کر قیامت تک کا درمیانی وقفہ برزخ کہلاتا ہے۔ لیکن ابن الفارس نے جو کافی وسعت کی قید لگائی ہے یہ صحیح نہیں کیونکہ قرآن کریم اس کی تائید نہیں کرتا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَا يَبْغِيَانِ
”دونوں میں ایک آڑ ہے کہ اس سے تجاوز نہیں کر سکتے۔“
[55-الرحمن:20]
البتہ اگر ”کافی کھلی جگہ“ کے بجائے کافی فرق (خواص وغیرہ کا) ہوتا تو موزوں تر تھا۔
”برزخ“ دراصل دو چیزوں کے درمیان ایک تیسری چیز ہوتی ہے جو آڑ کا کام بھی دیتی ہے مگر اس تیسری چیز یعنی ”برزخ“ میں دونوں چیزوں کے خواص بھی موجود ہوتے ہیں خوا وہ ایک چیز کے دوسری سے زیادہ ہوں یا برابر۔ عالم برزخ کی بھی یہی صورت ہے کہ مومن کے لیے راحت اور کافر کے لئے عذاب یہیں سے شروع ہو جاتا ہے لیکن یہ اخروی راحت یا عذاب سے کم تر درجہ کا ہوتا ہے۔
اور دو دریاؤں کا درمیانی برزخ یوں ہوتا ہے کہ سمندر میں ایک گرم رو چل رہی ہے دوسری سرد رو ہے تو اس برزخ کا پانی معتدل ہوگا۔ اسی طرح اگر ایک طرف میٹھا پانی ہو اور دوسری طرف کڑوا اور کھاری تو اس برزخ کا پانی درمیانی کیفیت کا حامل ہوگا اور اس برزخ کی چند مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ جن میں درمیانہ قسم کے خواص موجود ہوتے ہیں۔ مثلاً جنت اور دوزخ کے درمیان اعراف کے یہاں نہ عذاب ہو گا نہ راحت۔ انسان اور حیوان کے درمیان بن مانس ، انسان، اور مچھلی کے درمیان جل پری، حیوانات اور جمادات کے درمیان مرجان ، ٹھوس اور مائع اشیاء کے درمیان پارہ وغیرہ وغیرہ۔
حجر
”حجارة“ کا عام معنی پتھر ہے جو سخت اور ٹھوس ہے۔ مگر ”حجر“ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو سخت بھی ہو اور ایسی آڑ یا روک کا کام دے جو کسی چیز کو دوسری چیزوں سے الگ کر سکے۔ ابن فارس کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے: ”المنع والا حاطة على الشيء“ گاؤں کی حفاظت کے لیے گاؤں کے گرد حصار کھینچ لینا، پتھروں سے احاطہ کرنا، کوٹ یا حویلی سے احاطہ کرنا۔ یہ سب کچھ حجر کے مفہوم میں شامل ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلَائِكَةَ لَا بُشْرَى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ وَيَقُولُونَ حِجْرًا مَحْجُورًا
”جس دن وہ (گناہ گار) فرشتوں کو دیکھیں گے اس دن گناہ گاروں کے لیے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی اور کہیں گی (خدا کرے) تم روک لیے اور بند کر دیے جاؤ ۔“
[25-الفرقان:22]
”حِجْراً مَحْجُوْرَا“ کا لفظ اہل عرب کسی دشمن یا آفت کے نازل ہونے کا وقت محاورتاً استعمال کرتے تھے جیسے ہم کہتے ہیں ”اس سے خدا کی پناہ“ تو سننے والا اس کو عموما کوئی تکلیف نہ پہنچاتا۔
پھر ”حجر“ کا لفظ ایسی عقل کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو غلط اور باطل نظریات اور بیہودہ باتوں کو قبول کرنے سے انکار کر دے۔ گویا ایسی محتاط عقل کو بھی اپنا بچاؤ سوچ لے ”حجر“ کہتے ہیں۔
حجز
دو چیزوں کے درمیان ایک تیسری چیز جو دونوں کے درمیان حائل ہو جائے۔ (الحول بین الشیئین) اور حاجز بمعنی اوٹ، پردہ ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا
”اور دو دریاؤں کے درمیان اوٹ کس نے بنائی؟“
[27-النمل:61]
حد
ہر چیز کی انتہا اور آخری کنارہ اسے دوسری چیزوں سے الگ کر دے گویا اس کے بنیادی معنی میں 1) روک 2) کنارہ کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔ گویا حَدَّ کوئی تیسری چیز نہیں ہوتی وہ ایک ہی چیز کا آخری کنارہ ہے جو اسے دوسری چیزوں سے ملنے نہیں دیتا۔ ہمارے ہاں حدود کا لفظ عام مستعمل ہے جو اس مفہوم کی وضاحت کرتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا
”اور جو کوئی خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی حدوں (آخری انتہا ) سے آگے نکل جائے تو خدا اسے دوزخ میں ڈالے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔“
[4-النساء:14]