اطاعت (پیروی ، تابعداری ، فرمانبرداری)
”اطاعت، پیروی ، تابعداری ، فرمانبرداری“ کے لیے ”تَبَعَ“ ، ”اِقْتَدَ“ ، ”(قدو)“ ، ”اُسْوَة“ ، ”(اسو)“ ، ”اَطَاعَ“ ، ”اِسْتَجَابَ“ ، اْسْلَمَ ، ”قَنَتَ“ اور ”ذَعَنَ“ کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔
تَبَعَ
کسی کے پیچھے لگنا یا اس کے نقش قدم پر چلنا۔ اور یہ ظاہری اور باطنی طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ باطنی طور پر جیسے دین کی ہدایت کی یا کسی شخص کے عادات و اطوار کی پیروی کرنا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
”جس نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے۔“
[2-البقرة:38]
اِقْتَدَ(قدو)
بمعنی کسی کی پیروی کرنا اور اس جیسا کام کرنا اور اَقْدٰي کے معنی نیکی اور دین کے راستہ میں کسی کی پیروی کرنا ہے۔ جیسا کہ مقتدی نماز کی حالت میں امام کی اقتداء کرتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ
”یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے ہدایت دی تھی تو تم انکی ہدایت کی پیروی کرو ۔“
[6-الأنعام:90]
اُسْوَة (اسو)
اُسْوَةٌ ، قُدْوَةٌ دونوں قریب المعنی الفاظ ہیں ۔ اور نمونہ یا قابل تتبع حالت کے لیے آتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ اُسْوةٌ میں مواساة یعنی آپس میں ہمدردی اور غمگساری کا پہلو بھی پایا جاتا ہے ۔ گو یا اسوہ ایسا نمونہ ہے جس سے تسلی بھی ہو سکے اور اٰسِی مرہم پٹی کرنے والے طبیب او صلح جو کو کہتے ہیں۔ گوئا اُسْوةٌ کالفظ قُدْوَة سے زیادہ ابلغ ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
”تم کو پیغمبر خدا کی پیروی کرنی بہتر ہے۔ ( جالندھری )“
[33-الأحزاب:21]
اَطَاعَ
طوع بمعنی دل کی خوشی اور رضامندی (ضد كَرْہٌ بمعنی کراہت ، نفرت ناپسندیدگی) اور اطاح سے مراد ایسی فرمانبرداری ہے جو دل کی خوشی سے سرانجام دی جائے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ
”اللہ تعالی نے آسمان سے اور زمین سے کہا کہ آؤ خواہ خوشی سے یا نا خوشی سے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم خوشی سے آتے ہیں۔“
[41-فصلت:11]
اِسْتَجَابَ
بمعنی جواب دیا ، بات ماننا ، فرمانبرداری کرنا ، حکم مان لینا ۔ اطاعت اور استجابت میں فرق یہ ہے کہ اطاعت صرت بڑے کی کی جاتی ہے جبکہ استجابت چھوٹا بھی بڑے کی کر سکتا ہے۔ اگر اس کی نسبت اللہ کی طرف ہو تو اس کا معنی اللہ کے بندے کی دعا کو قبول کر لینا ہے اور اگر اس کی نسبت بندے کی طرف ہو تو اس کا معنی بندے کا اللہ کا حکم مان لینا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ
”اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔“
[8-الأنفال:24]
اْسْلَمَ
اَلسَّلْم بمعنی صحت و عافیت۔ اور ظاہری اور باطنی آفات سے محفوظ ہونا۔ اور اَسْلَمَ بمعنی اطاعت اختیار کرنا اورخدا کے احکام اور اس کی رضا کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا۔ تاکہ اخروی عذآب سے امن اور عافیت ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ
”جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پروردگار نے ان سے فرمایا کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں اپنے رب العالمین کے سامنے سر اطاعت خم کرتا ہوں ۔“
[2-البقرة:131]
قَنَتَ
بمعنی تمام وکمال خاموشی سے نماز میں کھڑا ہونا اور اللہ تعالی کے آگے خشوع وخضوع کرنا اور امام راغب کے نزدیک عبادت میں ہمہ تن مصروف ہونا اور غیر سے توجہ ہٹانا ہے۔ گویا قنوت ایسی اطاعت ہے جو پورے خشوع وخضوع اور توجہ سے بجا لائی جائے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ
”اور اے نبی کی بیویو! جو تم میں سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبردار رہیں گی اور بھلے کام کریں گی اس کو ہم دگناثواب دیں گے۔“
[33-الأحزاب:31]
ذَعَنَ
بمعنی مطیع ومنقاد ہونا اور اشاروں پر چلنا اور مِذْعَان بمعنی آسانی سے فرمانبردار ہو جانے والا اور نَاقَة مِذْعَان سوار کی مطیع اور فرمانبردار اونٹنی کو کہتے ہیں۔ گویا ذعن میں اطاعت کے ساتھ عاجزی اور ذلت کا پہلو بھی پایا جاتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِنْ يَكُنْ لَهُمُ الْحَقُّ يَأْتُوا إِلَيْهِ مُذْعِنِينَ
”اور اگر حق ان کو پہنچتا ہو تو اس کی طرف مطیع ہو کر چلے آتے ہیں۔“
[24-النور:49]