”اُڑانا ، اُڑنا“ کے لیے ”اَذْرٰي“ ، ”ذرو“ اور ”نسف“ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔ اور اڑنا کے لیے ”طار“ اور ”استطار“ کے الفاظ آئے ہیں۔
اَذْرٰي ذرو
ذرء بمعنی کلام کا ناتمام ٹکڑا اور ذَرَاتِ الرِّیْخ بمعنی ہوا نے ٹکڑے ٹکڑے شدہ چیز کو اٹھایا اور دور لے گئی۔ اور اَذْرٰي بمعنی ہوا کا ہلکی پھلکی چیزوں کو ہوا میں بکھیر کر اڑانا۔ ابن الفارس کے نزدیک ذرو سے مراد ایسی چیز کا ہوا میں اوڑنا ہے جو بعد میں متفرق ہوکر نیچے گڑ پڑیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ
”پھر اس کے ساتھ زمین کی روئیدگی مل گئی پھر وہ چورا چورا ہو گئی کہ ہوائیں اسے اڑائے پھرتی ہیں۔“
[18-الكهف:45]
نسف
نَسَفَ الْحَبَّ ، غلہ کو چھاج سے پھٹکنا اور مِنْسَف چھاج اور چھلنی وغیرہ جس سے غلہ صاف کیا جائے۔ اور نَسَفَ الرِّیْح بمعنی ہوا کا کسی چیز کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینا اور بمعنی پہاڑ وغیرہ کو کوٹنا اور اسے ہوا میں اڑا دینا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا
”اور تم سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دو کہ خدا ان کو اڑا کر بکھیر دے گا۔“
[20-طه:105]
طَارَ ، اِسْتَطَار
الطائر ہر پروار جانور کو کہتے ہیں جو فضا میں حرکت کرتا ہے اور طَارَ یَطِیْرُ پرندہ کا اڑنا اور طَیْر طَائِر کی جمع ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ
”اور نہ ہی کوئی پرندہ جو اپنے دونوں پروں سے اڑتا ہے۔“
[6-الأنعام:38]