قَرْض
قرض ایسا ادھار جو انسان اپنی اختیارات کے لیے کسی دوسرے سے لیتا ہے اور امام راغب کے مطابق وہ مال جو اس کی ضرورت پوری کرنے کے لیے دیا جائے اس شرط پر کہ وہ واپس مل جائے گا اور صاحب منتہی الارب اس پر اس شرط کا بھی اضافہ کرتے ہیں کہ ایسا ادھار جس کی ادائیگی کے لئے مدت مقرر نہ کی گئی ہو اگر مدت مقرر ہو تو یہ دَین ہے اس پر دلیل یہ آیت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ وَلَهُ أَجْرٌ كَرِيمٌ
”اے ایمان والو جب تم آپس میں کبھی لین دین کے لیے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو۔“
[57-الحديد:11]
دَیْن
اور دَیْن سے مراد لین دین کی تمام تر ذمہ داریاں ہوتی ہیں گویا یہ قرض سے عام ہے۔ یہ تجارتی اغراض کے تحت بھی لیا جا سکتا ہے اور ذاتی ضرورتوں کے لیے بھی اس کی مثال یوں سمجھیے کہ ایک آدمی نے لوگوں کو پانچ ہزار روپے ادا کرنے ہیں اور ساتھ ہی آٹھ ہزار لینے بھی ہیں۔ تو وہ مدیون تو ضرور ہے لیکن مقروض نہیں ہے اور اگر اس نے آٹھ ہزار ادا کرنے ہیں اور پانچ ہزار لینا ہے تو وہ مدیون بھی ہے اور مقروض بھی۔ اور اگر کسی شخص نے ذاتی ضروریات کے لیے کر کسی مقررہ وقت مدت پر لیا ہے تو اس نے مقررہ وقت پر قرض کی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کر لی ہے تو یہ قرض نہیں بلکہ دَیْن ہے کیوں کہ قرض کا لفظ جہاں کہیں قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے اکثر ساتھ حسنا کا لفظ بھی آیا ہے اور قرض حسنہ کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ
”اور اگر قرض لینے والا تنگ دست ہو تو اسے کشائش (کے حاصل ہونے تک) مہلت دو۔“
[2-البقرة:282]