ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
”اور یہودی اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے سوا کوئی بہشت میں نہیں جائے گا ۔ یہ ان لوگوں کے خیالات باطل ہیں۔ اے پیغمبر ! ان سے کہہ دیجئے اگر سچے ہو تو دلیل پیش کرو ۔“
[2-البقرة:111]
اور بعض علماء نے درج ذیل آیت:
إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ
”اور ان میں سے بعض ان پڑھ ہیں کہ اپنے خیالات باطل کے سوا (خدا کی) کتابوں سے واقف ہی نہیں اور وہ صرف ظن سے کام لیتے ہیں ۔“
اس میں ”اماني“ سے مراد وہ روایات لی ہیں جو انہوں نے اپنی طرف سے دین میں شامل کر لی تھیں یا تحریف کر لی تھی اور مجاہد نے ”اِلَّا اَمَانِيَّ“ کے معانی ”اِلَّا كَذِباً“ یعنی جھوٹ کیا ہے۔
اور بعض نے ”اَمَانِيّ“ سے مراد ”بےسوچے سمجھے تلاوت کرنا“ مراد لیا ہے۔ جیسا کہ اس خیال کی تائید بعض دوسری آیات بھی کرتی ہیں اور ”تَمَنّٰي“ بمعنی جھوٹی بات کرنا ”تمني الرجل“ بمعنی اس نے جھوٹ بولا۔
قرآن میں ہے:
أَمْ لِلْإِنسَانِ مَا تَمَنَّىٰ
”کیا انسان جس چیز کی آرزو کرتا ہے وہ اسے ضرور ملتی ہے۔“