”اٹھنا“ کے لئے ”بَعَثَ“ سے ”اِنْبَعَثَ“ ، ”نَشَرَ“ ، ”نَشَزَ“ اور ”قَامَ“ کے الفاظ آئے ہیں۔
اِنْبَعَثَ
بَعَثَ کے معنی کے لیے اٹھنا کے باب انفعال میں ہونے کی وجہ سے اس کے معنی کسی شخص کا خود اٹھنا اور کسی اہم مقصد کی تکمیل کے لئے تنہا روانہ ہونا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِذِ انْبَعَثَ أَشْقَاهَا
”قوم ثمود نے اپنی سرکشی کے سبب پیغمبر کو جھٹلایا جب ان میں ایک نہایت بدبخت اٹھا۔“
[91-الشمس:12]
نَشَرَ
(۱)مردوں کا قبروں سے اٹھ کر پھیل جانا (كما مرَّ) اٹھ کر (۲) اٹھ کر نکل کھڑا ہونا ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًا
”نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اٹھ کھڑے ہونا۔“
[25-الفرقان:3]
نَشَزَ
کسی تحریک یا ستحرک کی وجہ سے اٹھنا (كما مرَّ)۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ وَإِذَا قِيلَ انْشُزُوا فَانْشُزُوا
”اے ایمان والو جب تمہیں مجالس میں کھل کر بیٹھنے کو کہا جائے تو کھل کر بیٹھو خدا تم کو کشادگی بخشے گا اور جب کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہوا کرو۔“
[58-المجادلة:11]
قَامَ
بیٹھے ہوئے یا لیٹے ہوئے آدمی کا اٹھ کھڑا ہونا یا چلتے چلتے کھڑے ہونا سب کے لئے آتا ہے گویا کھڑا ہونا کے لیے بالعموم استعمال ہوتا ہے اب مثال دیکھیے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا
”وہ لوگ جو کھڑے اور بیٹھے خدا کو یاد کرتے ہیں۔“
[3-آل عمران:191]