ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنِّي آنَسْتُ نَارًا
”میں نے آگ دیکھی ہے۔“
[20-طه:10]
اور اس لحاظ سے ”انس“ کی ضد ”جن“ ہے۔ جس کے معنی استتار یا پوشیدگی کے ہیں اور آنکھ ان کا ادراک نہیں کر سکتی اور یہ اس لحاظ سے قرین قیاس بھی ہے کہ انہیں دو مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے ”ثَقَلان“ کہا ہے اور ایک دوسرے کے مقابل استعمال ہوئے ہیں۔
جیسے فرمایا :
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
”اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں۔“
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یوں روایت ہے کہ انسان کو انسان یا «(اِنْسِيًّا)» اس لیے کہا گیا ہے کہ:
لِاَنّهٗ عُهدِ اِلَيهِ فَنَسِی
”یعنی اس سے ایک عہد کیا گیا تھا جسے وہ بھول گیا۔“
[تفسير الطبري: ص 320]
گویا اس لحاظ سے ”انسان“ یا ”انسيا“ کا مادہ ”نسي“ ہوا۔
امام راغب رحمہ اللہ اسے ”اُنْس“ سے مشتق بیان کرتے ہیں ۔ یعنی ایسی مخلوق جو آپس میں انس و موانست اور باہم معاشرتی زندگی گزارنے کے لئے پیدا کی گئی۔ جو مانوس ہو اور ایک دوسرے سے جان پہچان رکھتی ہو۔ اس لحاظ سے اس کی ضد وحش ہو گی۔
اور ابن الفارس نے یہ دونوں چیزیں پیش کر دی ہیں۔ (1) ظاہر ہونا (2) ہر وہ شے جو جنگلی اور وحشی طور طریقہ سے مختلف ہو۔
”انس“ اسم جنس ہے یعنی ”انس“ مراد ایک شخص بھی ہو سکتا ہے اور تمام بنی نو انسان بھی۔ یہی کیفیت لفظ انسان کی بھی ہے لیکن یہ لفظ بول کر عموماً تمام بنی نوع انسان ہی مراد لی جاتی ہے۔ اس کا واحد ”اِنسِيٌّ“ ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَٰنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيًّا
”پھر (اے مریم) اگر تجھے کوئی آدمی دیکھ پائے تو کہہ دے کے میں نے اللہ کے لیے روزہ کی منّت مانی تھی۔ سو آج میں کسی آدمی سے بات نہ کروں گی۔“
”ناس“ کے لفظ میں عمومیت پائی جاتی ہے۔ اگر ”يايها الناس“ کہا جائے تو اس سے مراد موجودہ دور یعنی حال اور مستقبل کے سب انسان مخاطب ہوتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ
”اے لوگو! اپنے اس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔“