لفظ وضاحت و مترادفات

بشر
”بشر“ کے بنیادی معنی کسی چیز کا حسن و جمال کے ساتھ ظہور ہے۔ جبکہ ”انس“ کے معنی محض ظہور کے ہیں۔ ”اَلْبَشَرَةَ“ انسان کی جلد کی اوپر کی سطح کو کہتے ہیں۔

متعلقہ اردو لفظ اور اس کے عربی مترادف

آدمی
”آدمی“ کے لیے ”انس“ اور اس کے مشتقات مثلاً ”انسان“ ، ”انسيّا“ ، ”ناس“ ، ”اناسي“ وغیرہ کے علاوہ ”اٰدم“ اور ”بشر“ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
روٹ:أ ن س
انس
غریب القرآن میں ”انس“ کے بہت سے معنی درج ہیں۔ ابن قتیبہ لکھتے ہیں کہ انسان کو ”انس“ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ ظاہر ہے اور آنکھوں سے اس کا ادراک کیا جا سکتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنِّي آنَسْتُ نَارًا
”میں نے آگ دیکھی ہے۔“
[20-طه:10]
اور اس لحاظ سے ”انس“ کی ضد ”جن“ ہے۔ جس کے معنی استتار یا پوشیدگی کے ہیں اور آنکھ ان کا ادراک نہیں کر سکتی اور یہ اس لحاظ سے قرین قیاس بھی ہے کہ انہیں دو مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے ”ثَقَلان“ کہا ہے اور ایک دوسرے کے مقابل استعمال ہوئے ہیں۔
جیسے فرمایا :
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
”اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں۔“
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یوں روایت ہے کہ انسان کو انسان یا «(اِنْسِيًّا)» اس لیے کہا گیا ہے کہ:
لِاَنّهٗ عُهدِ اِلَيهِ فَنَسِی
”یعنی اس سے ایک عہد کیا گیا تھا جسے وہ بھول گیا۔“
[تفسير الطبري: ص 320]
گویا اس لحاظ سے ”انسان“ یا ”انسيا“ کا مادہ ”نسي“ ہوا۔
امام راغب رحمہ اللہ اسے ”اُنْس“ سے مشتق بیان کرتے ہیں ۔ یعنی ایسی مخلوق جو آپس میں انس و موانست اور باہم معاشرتی زندگی گزارنے کے لئے پیدا کی گئی۔ جو مانوس ہو اور ایک دوسرے سے جان پہچان رکھتی ہو۔ اس لحاظ سے اس کی ضد وحش ہو گی۔
اور ابن الفارس نے یہ دونوں چیزیں پیش کر دی ہیں۔ (1) ظاہر ہونا (2) ہر وہ شے جو جنگلی اور وحشی طور طریقہ سے مختلف ہو۔
”انس“ اسم جنس ہے یعنی ”انس“ مراد ایک شخص بھی ہو سکتا ہے اور تمام بنی نو انسان بھی۔ یہی کیفیت لفظ انسان کی بھی ہے لیکن یہ لفظ بول کر عموماً تمام بنی نوع انسان ہی مراد لی جاتی ہے۔ اس کا واحد ”اِنسِيٌّ“ ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَٰنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيًّا
”پھر (اے مریم) اگر تجھے کوئی آدمی دیکھ پائے تو کہہ دے کے میں نے اللہ کے لیے روزہ کی منّت مانی تھی۔ سو آج میں کسی آدمی سے بات نہ کروں گی۔“
”ناس“ کے لفظ میں عمومیت پائی جاتی ہے۔ اگر ”يايها الناس“ کہا جائے تو اس سے مراد موجودہ دور یعنی حال اور مستقبل کے سب انسان مخاطب ہوتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ
”اے لوگو! اپنے اس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔“

روٹ:أ ن س
اناس
انسانوں کے ایسے گروہ کو کہا جاتا ہے جو تقسیم کار یا قبیلہ یا کسی دوسری وجہ سے دوسرے سے مختلف ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ
”ہر گروہ نے اپنا اپنا گھاٹ ( پینے کی جگہ) پہچان لیا۔“
[7-الأعراف:160]
اور ”اَنَاسِيَّ“ انسانوں کے ایک بہت بڑے گروه کو کہا جاتا ہے۔
دوسرے مقام پر فرمایا :
خَلَقْنَا أَنْعَامًا وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا
”ہم نے چوپائے اور بے شمار انسان پیدا کیے۔“

روٹ:ب ش ر
بشر
”بشر“ کے بنیادی معنی کسی چیز کا حسن و جمال کے ساتھ ظہور ہے۔ جبکہ ”انس“ کے معنی محض ظہور کے ہیں۔ ”اَلْبَشَرَةَ“ انسان کی جلد کی اوپر کی سطح کو کہتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَوَّاحَةٌ لِلْبَشَرِ
”دوزخ کی آگ جلد کو جھلس کر سیاہ کر دے گی۔“
[74-المدثر:29]
اور اس کی جمع ”بَشَرٌ“ اور ”اَبْشَارٌ“ آتی ہے اور انسان کو ”بشر“ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی جلد بمقابلہ دوسرے حیوانات کے اون، پشم اور بالوں وغیرہ سے بہت حد تک پاک صاف ہوتی اور ظاہر دکھائی دیتی ہے۔
”بشر“ کا لفظ واحد، جمع، مذکر، مونث سب کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے۔ البتہ اس کی تثنیہ ”بَشَرَيْن“ ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا
”کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں؟“
اور ”بشر“ کا لفظ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب انسان کی طبعی اور مادی پہلو، اس کی جسمانی بناوٹ فطری حوائج اور کمزوریوں کا ذکر کرنا مقصود ہو۔ جیسا کہ مندرجہ بالا آیت سے واضح ہے۔
اور ”بشر“ کے مقابلے میں ”مَلَك“ (بمعنی فرشتہ) کا لفظ ہے جو مادی پہلو، یعنی ظاہری جسم اور فطری حوائج سے یکسر پاک ہوتا ہے۔ کفّار کا ہمیشہ یہی اعتراض رہا کہ ہم اپنے ہی جیسے ایک بشر جو ہماری طرح ہی پیدا ہوتا اور مرتا ہے، کھاتا پیتا، بازاروں میں چلتا پھرتا اور اپنی حاجات ہماری طرح ہی پوری کرتا ہے۔ تو اس میں آخر کیا فوقیت ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے۔ ہاں اگر کوئی فرشتہ ہوتا، جو ان حوائج سے پاک ہوتا تو کوئی بات بھی تھی۔
درج ذیل آیات میں الله تعالیٰ نے اسی اعتراض کا جواب دیا ہے:
وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَىٰ إِلَّا أَن قَالُوا أَبَعَثَ اللَّهُ بَشَرًا رَّسُولًا قُل لَّوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَّسُولًا
”اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آ گئی تو ان کو ایمان لانے سے اس کے سوا کوئی چیز مانع نہیں ہوئی کے کہنے لگے کہ کیا خدا نے آدمی کو پیغمبر بنا کے بھیجا ہے۔ آپ کہہ دیجئے کہ اگر فرشتے زمین میں آباد ہوتے جو چلتے پھرتے اور آرام کرتے تو ہم ان کے پاس آسمان سے فرشتہ ہی پیغمبر بنا کر بھیجتے۔“



ماحصل

نمبر لفظ مختصر وضاحت
1
انس
جب انسان کے معاشرتی پہلو کا تذکرہ مقصود ہو تو انس اور اس کے مشتقات کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
2
اناس
انسانوں کا گروہ جو دوسرے سے مختلف ہو
3
بشر
جب اس کے طبعی اور فطری حوائج کا ذکر مقصود ہو تو بشر کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔

Download Mutaradif words
PDF FILES
WORD FILES
Abu Talha
Whatsapp: +92 0331-5902482

Email: islamicurdubooks@gmail.com