”اتارنا ، اترنا“ کے لیے ”نَزَلَ“ اور ”تَنَزَّلَ“ ، ”حَلَّ“ اور ”هَبَطَ“ کے الفاظ آئے ہیں۔
اَنْزَل ، نَزَّلَ
بعض علماء کا خیال ہے کہ اَنْزَل کا لفظ بلندی سے کوئی چیز یکبارگی اتارنے کیلئےاستعمال ہوتا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ
”ہم نے قرآن کریم کولیلۃ القدر میں اتارا۔“
[97-القدر:1]
اَحَلَّ
کسی دوسرے کو کسی مقام پر اتارنا۔ اور یہ اترنے والے کے کسی عمل کے نتیجہ پر ہوتا ہے ، اور خیر و شر دونوں صورتوں میں آتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
الَّذِي أَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهِ
”وہ کہیں گے ، خدا کا شکر ہے کہ جس نے ہم سے غم دور کیا ۔ بے شک ہمارا پروردگار بخشنے والا اور قدر دان ہے جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ کے لیے اپنے گھر میں اتارا ۔“
[35-فاطر:35]
وَضَعَ
کے بنیادی معنی نیچے رکھ دینا کے ہیں۔ لفظ وضع حمل اور جو بوجھ اتارنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور حمل میں بھی بوجھ ہی اتارا جاتا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ
”اور ہم نے آپ سے وہ بوجھ اتار دیا جو آپ کی کمر توڑ رہا تھا۔“
[94-الشرح:2]
خَلَعَ
بنیادی معنی کسی چیز کو علیحدہ کرنا ہیں جو پہلے اس میں شامل تھی ۔ لفظ خلع بھی یہی مفہوم ادا کرتا ہے کہ عورت زر بدل دے کر خاوند سے علیحدہ ہو جاتی ہے اور طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔ قرآن کریم میں یہ لفظ پاؤں سے ہوتے تک کو علیحدہ کرنے (اتارنے )کے لیے استعمال ہوا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى
”اے موسیٰ علیہ السلام میں تمہارا پر ور دگار ہوں تو اپنی جوتیاں اتار دو۔ تم یہاں ایک میدان یعنی طوی میں ہو ۔“
[20-طه:12]